مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں چوری کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ’’چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت، ان دونوں کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے‘‘ (سورۃ المائدہ) یعنی چور مرد کا تذکرہ پہلے اور چور عورت کا تذکرہ بعد میں ہے، لیکن قرآن پاک میں جہاں زنا کا تذکرہ کیا گیا تو وہاں اللہ تعالی نے عورت کا تذکرہ پہلے کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ’’زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد‘‘ (سورۃ النور) مفسرین فرماتے ہیں کہ جب تک عورت خود ڈھیل نہ دے، خود موقع فراہم نہ کرے، مرد کوشش کے باوجود اس کی عزت و ناموس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ پھر چوری کرنا مردانگی کے زیادہ خلاف ہے، اس لئے وہاں پر مرد کا تذکرہ پہلے کیا۔ جب کہ زنا کرنا حیا کے خلاف ہے اور حیا عورت میں زیادہ ہوتی ہے، اس لئے عورت کا تذکرہ پہلے کیا۔ لہذا جوان بچی کے لئے دنیا میں سب سے بڑا کام اپنی عزت کی حفاطت کرنا ہے۔ اس کو یہ محسوس کرنا چاہئے کہ ہر غیر آدمی میری طرف لالچ کی نظر رکھتا ہے، لہذا مجھے ان للچائی نظروں سے خود کو بچانا ہے۔ جس طرح چراغ جل رہا ہو تو ہوا کے جھونکوں سے اسے خود بچایا جاتا ہے، اگر نہیں بچائیں گے تو کوئی بھی ہوا کا جھونکا چراغ گُل کردے گا، اسی طرح بچی کو یہ سمجھنا چاہئے کہ میری عزت و ناموس کا چراغ جل رہا ہے، اسے آندھیوں اور ہواؤں سے ہمیں خود بچانا ہے، اگر ہم نے غفلت کی تو کوئی جھونکا ہماری عزت کا چراغ گُل کردے گا۔ یقیناً دنیا میں رہتے ہوئے ایک عورت کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کرے۔
ایک جوان عورت کی فکر یہ ہونی چاہئے کہ اگر میں بے پردہ باہر نکلی، کسی غیر محرم نے دیکھ لیا اور اُس کی نظروں میں فتور آگیا تو میری ہی عزت جائے گی، یعنی دنیا میں بدنامی ہوگی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی، پھر میں کس طرح اپنے رب کو منہ دِکھاؤں گی؟۔
ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اتنا احتیاط کرتی تھیں کہ جب کبھی صحن میں فارغ بیٹھتیں تو کوئی تسبیح وغیرہ پڑھ رہی ہوتیں۔ یہاں تک کہ کھلے صحن کی طرف رُخ کرکے نہ بیٹھتیں، بلکہ دیوار کی طرف چہرہ کرکے بیٹھا کرتیں، تاکہ غلطی سے بھی کسی کی نظر پڑنے کا امکان نہ ہو۔ غور کیجئے کہ اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی کوئی عورت صحن کی طرف چہرہ کرکے صرف اس لئے نہیں بیٹھتی کہ ممکن ہے دروازہ کھلے یا کوئی ایسی صورت نہ پیدا ہو جائے کہ غلطی سے کسی کی نظر پڑجائے، تو اس خاتون محترم کے اندر پردہ کا کتنا اہتمام اور لحاظ ہوگا۔ یقیناً یہ عورت کی ذمہ داری ہوتی ہے، فرض منصبی ہوتا ہے، دنیا میں رہتے ہوئے ان کے لئے یہ سب سے بڑا کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کریں۔ اگر ان کی عزت ہی نہ بچی تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا، لہذا عورت کو اس معاملے می ضرورت سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ عورت، مرد کی ایک کمزوری ہے، اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مجھے اپنی امت کے مردوں پر سب سے زیادہ جس چیز کا خطرہ ہے، وہ عورت کا فتنہ ہے‘‘۔ لہذا یہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچائے۔ شریعت نے مردوں کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو بدنگاہی سے محفوظ رکھیں۔ آج کل کی جوان بچیاں یہ سمجھتی ہیں کہ نظروں کو نیچی رکھنا تو مردوں کا کام ہے، وہ کیوں ہماری طرف دیکھتے ہیں، تاہم وہ اس چیز کو بھول جاتی ہیں کہ ان میں بھی نفس ہے اور ان کے ساتھ بھی شیطان ہے۔ ان کی نظر اگر غیر مرد پر پڑے گی تو ان کے لئے بھی فتنہ میں پڑنے کا خطرہ ہے۔ قرآن مجید میں حکم ربانی ہے کہ ’’پردے میں رہو! یہ ان مردوں کے دِلوں کی پاکیزگی کے لئے اچھا ہے اور تمہارے دلوں کی پاکیزگی کے لئے بھی اچھا ہے‘‘ (سورۃ الاحزاب) یعنی دلوں کے بھید جاننے والے رب العالمین نے یہ فیصلہ فرمادیا کہ جب بھی انسان نظر کی کوتاہی میں مبتلا ہوتا ہے تو مرد و عورت دونوں کے دلوں میں گناہوں کے خیالات آتے ہیں۔ لہذا ہم مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات قبول کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو مان لینا چاہئے کہ مرد و عورت دونوں کو اپنی نظروں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ جب مرد و عورت دونوں کو بدنگاہی سے روکا گیا ہے، تو ایک جوان بچی کے لئے دنیا کا سب سے اہم کام اور فرض یہ ہے کہ وہ اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے۔
آپ کے پاس دس ہزار روپئے ہیں اور آپ حج کے لئے سفر کر رہی ہیں تو کیا آپ اپنی اس رقم کو کسی عام بیگ میں رکھ کر سفر کریں گی؟۔ نہیں! بلکہ اسے محفوظ بیگ یا پرس میں چھپاکر رکھیں گی، تاکہ جب آپ حرم شریف پہنچیں تو آپ کی یہ رقم محفوظ رہے اور کوئی آپ کی رقم دیکھ نہ سکے۔ جب آپ کو اپنی رقم محفوظ رکھنے کا اتنا خیال ہے کہ اسے ڈھونڈنے والا ڈھونڈ نہ سکے، تو عزت و عصمت تو اس سے بھی بہت زیادہ قیمتی ہے، لہذا آپ خود کو اس طرح مردوں سے چھپاکر رکھیں کہ اگر کسی کی نیت میں فتور بھی ہو تو اس کا ہاتھ آپ تک نہ پہنچ سکے۔ اسی لئے شریعت مطہرہ نے ہمیں حیا اور پاکدامنی کی تعلیم دی ہے۔ شریعت نے پاکدامنی کی ایسی تعلیم دی ہے کہ اگر عورت کنگھی کرے اور اس کے بال ٹوٹ جائیں تو ان ٹوٹے ہوئے بالوں کو بھی عام جگہ پر نہ ڈالے۔ ممکن ہے کسی غیر مرد کی نظر پڑجائے اور یہی بال عورت کی طرف اس کے میلان کا سبب بن جائیں۔ غور کیجئے! جو شریعت عورت کے جسم سے ٹوٹے ہوئے بالوں کی بھی بے پردگی پسند نہیں کرتی، وہ کسی عورت کے جسم کی بے پردگی کیسے پسند کرے گی؟۔ جس شریعت کا یہ حکم ہے کہ اگر عورت فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ قبر میں وہی لوگ اُتاریں، جو اس کے قریبی لوگ (یعنی محرم) ہوں اور غیر محرم مرد اس کو ہاتھ لگانے سے پرہیز کرے، تو پھر زندگی میں جیتے جاگتے شریعت یہ بات کیسے پسند کرے گی کہ کوئی عورت اپنے آپ کو کسی غیر کے حوالے کرے؟۔ آج فحاشی عام ہے اور ہم ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں، جہاں مسلم اور غیر مسلم دونوں مل جل کر رہتے ہیں، جب کہ غیر مسلموں کے نزدیک پردے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اس لئے ان کا آدھا جسم ننگا رہتا ہے، جنھیں دیکھ کر مسلم خواتین بھی دھوکے میں آجاتی ہیں۔ (اقتباس)