اردن میں عرب چوٹی کانفرنس کا آغاز ہوگیا جس میں علاقائی تصادم اور دہشت گردی جیسے مساء پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے ۔ اس چوٹی کانفرنس میںاہم عرب ممالک کے قائدین بشمول سعودی فرمانروا شاہ سلمان بھی شرکت کر رہے ہیں ۔ اس کانفرنس میں یمن ‘ شام ‘ عراق و لیبیا کی صورتحال پر ان قائدین کے مابین تبادلہ خیال ہو رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف مہم کو بھی ایجنڈہ میں شامل کیا گیاہے ۔ عرب چوٹی کانفرنس میں شریک عرب قائدین کیلئے اپنے اپنے ایجنڈہ اور امور پر توجہ کرنے کے ساتھ عالم اسلام کی صورتحال اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہے حملوں اور ان کے اثرات کے تعلق سے بھی غور کرنے اور ایک پریشر گروپ بناتے ہوئے مسلم مخالف طاقتوں پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے ۔ عرب ممالک کو اپنے اپنے علاقہ کی ذمہ داری کو سمجھنے اور اسے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ان ممالک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالم اسلام کے مسلمان ان سے توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ ان کی جانب امید کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی روک تھام کیلئے آواز اٹھائیں۔ عرب ممالک اور ان کے حکمرانوں کو امریکہ اور دوسری مغربی ممالک کے دباؤ کو کم سے کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آواز کو بلند کرسکیں اور انہیں حق و انصاف دلانے کیلئے جدوجہد کرسکیں۔ آج عالم اسلام کو سنگین مسائل کا سامنا ہے ۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا عمل چل رہا ہے ۔ برما میں مسلمانوں کی منظم انداز میں نسل کشی ہو رہی ہے ۔ وہاں مرد و خواتین کا قتل عام کیا جار ہا ہے ان کی عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں۔ بچوں کو تک بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ وہیں شام میں مسلمان ایسی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں جو ان کیلئے موت سے بد ترین کہی جاسکتی ہے ۔ انہیں نہ شام میں زندگی گذارنے کا موقع صحیح ڈھنگ سے نصیب ہو رہا ہے اور نہ وہ نقل مقام کرتے ہوئے اپنے لئے کوئی گوشہ عافیت تلاش کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ راستوں کے خطرات کا الگ سے سامنا ہے ۔ اسی طرح یمن ‘ افغانستان ‘ عراق اور کئی دوسرے ممالک میں بھی جو صورتحال ہے وہ عالم اسلام کیلئے اچھی نہیں کہی جاسکتی ۔
صیہونی مملکت اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں وہ دنیا بھر سے چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔ وہاں معصوم بچوں تک کو ظلم و انسانیت سوز اذیتوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہودیوںکی نوآبادیات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اسرائیل کے خلاف عالم اسلام نے اور خاص طور پر عرب ممالک نے جو خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اسے توڑنے کی ضرورت ہے ۔ مسلم ممالک میں ترکی نے اپنے طور پر حتی المقدور مسلم مسائل اور امور پر آواز اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ترکی آواز اٹھاتا ہے تو اسے مغربی اور مسلم مخالف طاقتوں کا نشانہ بننے کیلئے یکا و تنہا ہونے نہیں دیا جانا چاہئے ۔ ترکی کے ساتھ آواز ملاتے ہوئے دوسرے مسلم اور عرب ممالک کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ ترکی چونکہ یوروپ کا باب الداخلہ ہوسکتا ہے اس لئے عرب ممالک کو اس کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ کسی ایک مسلم ملک پر ساری امت مسلمہ کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ۔ یہ ایک اجتماعی ایجنڈہ ہونا چاہئے ۔ سب کو مل جل کر ایک آواز میں مسلم ممالک اور مسلمانوں کو درپیش مسائل پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔ دیگر ممالک اور گروپس کے ساتھ بات چیت کے راستے ہموار کرتے ہوئے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم کو ختم کرنے کیلئے کوششیں ہونی چاہئیں۔ یہ احساس پیدا ہونا ضروری ہے کہ اس مہم کے خلاف کوشش کرنا سب کی اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے ۔
عرب ممالک کی جو چوٹی کانفرنس ہو رہی ہے وہ ایک اچھا موقع ہے کہ سارے قائدین ایک جگہ جمع ہیں اور وہ عالم اسلام کو درپیش مسائل پر ایک متفقہ رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح کی کانفرنس پہلے بھی ہوچکی ہے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے ۔ اگر کانفرنس کا مطلب سب ایک جگہ جمع ہونا اور محض رسمی تبادلہ خیال ہی کرنا ہے تو پھر اس کے نتائج کی امید نہیں کی جاسکتی لیکن اگر اس کانفرنس کو با معنی بنانا ہے تو اس کیلئے خود عرب ممالک اور ان کے قائدین کو اس کا ایک ایسا ایجنڈہ تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے جو دوسروں کیلئے بھی قابل توجہ ہو اور خود عالم اسلام کیلئے بھی اس سے کوئی بہتری کی راہ نکل آئے ۔ دنیا بھرکے مسلمانوں کیلئے اس تنظیم اور گروپ کو ایک ذمہ دار گروپ کا رول نبھانے کی ضرورت ہے اور یہی ان ممالک سے امید بھی کی جا رہی ہے ۔ اس گروپ کو یہ ذمہ داری پوری کرنے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔