عرب ممالک میں بدامنی

تجھ کو بھٹکانے کے ساماں ہیں زمانے میں بہت
تو مگر بچنے کو تطہیر نظر پیدا کر
عرب ممالک میں بدامنی
یمن میں باغی حوثی گروپ کی پیشقدمی کو روکنے میں سعودی عرب اگر ناکام ہوتا ہے تو یہ گروپ تمام خلیجی ملکوں کیلئے بڑا خطرہ بن جائے گا ۔ یمن کے حالات پر نظر رکھنے والے عالمی ادارہ اقوام متحدہ نے اس ملک کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اس کو مکمل مفلوج ملک قرار دیا ہے ۔ یہ عالم عرب میں غریب ترین ملک کی حیثیت سے جانا جاتا ہے ۔ خانہ جنگی کی وجہ سے باغیوں نے اپنی طاقت کو مجتمع کیا اور اس طاقت کو بیرونی سرپرستی حاصل ہوئی تو یمن کو بدامنی کی آگ میں جھونک دیا گیا ۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے سعودی عرب اور اتحادی افواج کی فوجی کارروائیوں کے باوجود باغی حوثی گروپ نے عدن کے قصر صدارت پر قبضہ کرلیا ۔ اس جنگ کو علاقائی دشمنی کا دیرینہ حساب کتاب بھی سمجھا جارہاہے ۔ اگر یمن کے ایک دہے پرانے حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہاں انتہاپسند گروپ چھوٹی چھوٹی تکڑیوں میں سرکاری افواج سے برسرپیکار تھے ۔ اس وقت ان گروپس کو کچل دیا جاتا تو آج یمن کی سرزمین کو لہولہان کرنے جیسے حالات پیدا نہیں ہوتے ۔ یمن میں ایک اور گروپ القاعدہ کی موجودگی بھی صورتحال کو دھماکو بناتی رہی ہے ۔ ایک طرف حوثی گروپ کی پیشقدمی اور دوسری طرف القاعدہ کی انتہاپسندانہ کارروائیوں سے یہی اندازہ اخذ کیا جاتا ہے کہ اس علاقہ پر کنٹرول کیلئے دو متحارب گروپس اپنی ساری توانائی صرف کرکے عوام الناس کو موت کی نیند سلانے جارہے ہیں۔ یمن کے تعلق سے عالمی طاقتوں خاص کر امریکہ موافق سعودی عرب موقف ہونے کے باوجود تاریکی میں تیر چلانے کی کوشش کررہا ہے کیوں کہ امریکہ ازخود شام اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ کررہا ہے ۔ دوسری طرف ایران کے ساتھ دوستی کو استوار کرتے ہوئے نیو کلیئر مذاکرات میں دلچسپی لے رہا ہے۔ امریکہ کی اس دوہری مزاجی کے نتیجہ میں عالم اسلام یا سرزمین عرب میں رہنے والوں کو جو جانی و مالی نقصان ہورہا ہے اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ امریکہ نے کس علاقہ کیلئے اپنی کونسی پالیسی وضع کی ہے ۔ یمن کو پرامن بنانے کیلئے ضروری ہے کہ سعودی عرب اور اتحادی گروپ کو عالمی تائید حاصل ہوجائے ۔ جب عراق میں داعش نے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرکے بڑی طاقتوں کی نیند حرام کی تھی اب وہاں عراقی فوج نے دھیرے دھیرے داعش کے گڑھ کو کمزور کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ داعش کے زیرکنٹرول تکریت کو دوبارہ اپنے قبضہ میں لے کر عراقی فوج نے یہ تو واضح کردیا ہے کہ وقت آنے پر وہ اپنے ملک کی حفاظت کرنے کی کوشش میں پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ داعش نے عراق کے کئی شہروں کو اپنے کنٹرول میں لے کر جنوبی عراق سے ہوکر بغداد پر دستک دینے کی تیاری شروع کی تھی لیکن اب عراقی فوج کی تکریت پر فتح سے داعش کو کمزور کردینے کا اشارہ ملتا ہے تو یمن میں بھی بیرونی طاقتوں کی کارروائیوں کو مقامی افراد اور افواج کی تائید حاصل ہونا ضروری ہے ۔ یمن کے عوام کی بڑی تعداد جب تک حوثی باغیوں کے خلاف اُٹھ کھڑے نہیں ہوں گے یمن کو پرامن بنانے میں مشکل درپیش ہوگی ۔ دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہوگا جو جنگ و جدال کو پسند کرے گا ۔ تاہم بعض ممالک خاص کر مغربی ممالک جنگ کو ہوا دینے میں اہم رول رکھتے ہیں۔ ان ملکوں کو دیگر اقوام کے معاملوں میں مداخلت کرنے ایک دوسرے کو آپس میں لڑانے سے دلچسپی ہوتی ہے ۔ اس سے عالم اسلام خاص کر عرب ملکوں کو جنگ والی کیفیت کو خود پر مسلط کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ سعودی عرب ایک پرامن ملک ہے ، اس ملک کے حکمرانوں کا امن اور بقائے باہم پر ایقان رہا ہے ۔ یمن کو مزید خون ریزی سے محفوظ رکھنے کیلئے دہشت گردوں کو سبق سکھانا ضروری تھا لیکن یہ فضائی کارروائی دیرپا رہی تو پورے خطہ کے استحکام و امن کو خطرہ لاحق ہوگا ۔
آر بی آئی کی کارکردگی اور وزیراعظم
ریزرو بنک آف انڈیا کو ملک کے ہر کونے تک بنک خدمات فراہم کرنے کو یقینی بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے آر بی آئی سے 20 سالہ ایک روڈ میاپ تیار کرنے کی خواہش کی۔ حالیہ مہینوں میں بحیثیت وزیراعظم نریندر مودی کی بنکاری خدمات خاص کر جن دھن یوجنا کو کامیاب بنانے کی ان کی مہم کا حصہ ہیں۔ آر بی آئی کی کارکردگی سیاسی مداخلت کے بغیر محسن طریقہ سے جاری ہے۔ اس بنک نے اپنی خدمات کا 80 سال مکمل کرلئے ہیں اور 2035 ء میں 100 سال کا جشن منانے کی تیاری کرنے والے اس بنک کی مالیاتی سرگرمیوں پر مودی نے تنقید کس بنیاد پر کی ہے ان کی سوچ کا معاملہ ہے ۔ انھوں نے کہاکہ بینکس اپنا کام توقع کے مطابق انجام نہیں دے رہے ہیں۔ جبکہ خود مودی حکومت نے اقتدار کے 10 ماہ کے اندر اپنے وعدو ںکو پورا نہیں کیا ہے جبکہ آر بی آئی کی کارکردگی میں کہیں بھی کوتاہی نہیں دیکھی گئی ۔ اس کے اب تک کے گورنرس نے ہی بینک کی اہلیت کو برقرار رکھا ہے۔ موجودہ گورنر رگھورام جی اور ان کی ٹیم بہترین کام انجام دے رہی ہے مگر سیاسی مداخلت یا حکومت کے کارندوں کی تجاویز کو مسلط کرنے کی کوشش سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود کسانوں یا عوام کے لئے مالیاتی اقدامات کرنا نہیں چاہتی بلکہ آر بی آئی کا کام بڑھانا چاہتی ہے۔ وزیراعظم مودی اپنی پارٹی بی جے پی کو دنیا کی سب سے بڑی پارٹی قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے ملک میں بنک اکاؤنٹس کھولنے کی مہم چلاکر اہم کوشش کی ہے مگر ان بنک اکاؤنٹس میں وعدے کے مطابق انھوں نے راست رقومات کی منتقلی کا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ ملک کے کئی کسان اور غریب عوام اپنے زیرو بیانلس کے بنک اکاؤنٹس کے ساتھ مودی حکومت کے وعدوں کا انتظار کررہے ہیں۔میک ان انڈیا کا نعرہ دینے والے وزیراعظم مودی کو یہ معلوم ہے کہ آر بی آئی کو کرنسی نوٹوں کی اشاعت کیلئے جرمنی ، جاپان اور برطانیہ جیسے ملکوں سے کاغذ درآمد کرنا پڑتا ہے اور بنک کو کرنسی کی تیاری پر 40 فیصد لاگت بیرونی ملکوں سے درآمد کردہ کاغذ کے لئے آتی ہے ۔ کیا ہندوستان میں کرنسی نوٹوں کے لئے کاغذ کی تیاری کو ممکن نہیں بنایا جاسکتا ۔ میک ان انڈیا کا نعرہ دینے والی مودی حکومت کیا آر بی آئی کے لئے یہ کام نہیں کرسکتی ۔