عراق کی صورتحال

گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں

عراق کی صورتحال
عراق میں صورتحال انتہائی دھماکو اور سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ عسکری گروپس کی جانب سے جو حملے کئے جارہے ہیں ان کے نتیجہ میں عراقی افواج کی جانب سے دفاع مشکل ہوتا جا رہا ہے تاہم عراقی افواج نے عوام کے تعاون سے اپنی جوابی کارروائیاں شروع کرتے ہوئے دارالحکومت بغداد کے شمال کے کچھ علاقوں کو واپس حاصل کرلیا ہے۔ اس کے باوجود کئی اہم مقامات اور ٹاونس پر باغیوں اور عسکریت پسندوں کا قبضہ ہے۔ یہ عسکریت پسند کچھ ٹاؤنس اور شہروں پر قبضہ جمانے کے بعد اب دارالحکومت بغداد اور عراق کے مقدس شہروں کی سمت پیشرفت کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے ان کی تیاریاں بھی چل رہی ہیں لیکن عراق کی سکیوریٹی فورسیس اور مقامی رضاکاروں نے اس پیشرفت کو روکنے کیلئے تمام تر تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور وہ کسی بھی حال میں عسکریت پسندوں کی پیشرفت کو روکنا چاہتے ہیں۔ یہ صورتحال نہ عراق کیلئے بہتر کہی جاسکتی ہے اور نہ عراق کے عوام کیلئے۔ خاص طور پر عالم اسلام کیلئے عراق کی صورتحال تشویش کا باعث ہوسکتی ہے۔ یہاں استحکام کو متاثر کرتے ہوئے عسکری گروپس اپنے وجود کو منوانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ان کی سرگرمیاں ان کے اپنے مفادات کی تکمیل کا باعث تو ہوسکتی ہیں لیکن اس سے مجموعی طور پر نہ عراقی عوام کی کوئی مدد ہوسکتی ہے اور نہ ہی عالم اسلام کی کوئی خدمت ہوسکتی ہے۔ عراق پہلے ہی ایک طویل عرصہ تک جنگ کا شکار رہا ہے اور وہاں مسلسل تباہی ہوتی رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب یہ اُمیدیں پیدا ہوئی تھیں کہ وہاں امن قائم ہوگا اور عراقی شہریوں کو قدرے راحت اور سکون کی سانس لینا نصیب ہوگا عسکری گروپس کی جانب سے جنگی کارروائیاں کرتے ہوئے وہاں حالات کو درہم برہم کردیا گیا ہے اور عراق ایک بار پھر جنگ کا شکار ہوگیا ہے۔ باغیوں نے صوبہ صلاح الدین کے بیشتر علاقہ پر قبضہ کرلیا ہے۔ وہ دوسرے شہروں کی سمت بھی پیشرفت کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرد فورسیس بھی سرگرم ہوگئی ہیں اور انہوں نے بھی اپنے تسلط والے علاقہ کو وسعت دینے میں کچھ حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔ عراقی سکیوریٹی فورسیس کو ابتداء میں دفاع میں مشکلات پیش آئی تھیں لیکن اب وہ اپنے ٹھکانے سنبھال چکی ہیں۔ عراق میں جس طرح سے جنگ مسلط کی جا رہی ہے اس کے پس پردہ یہودی اور صیہونی سازشوں کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ فریقین کو ورغلاتے ہوئے ایک دوسرے سے متصادم کرتے ہوئے اسلام دشمن طاقتیں اپنے مفادات کی تکمیل میں جٹ گئی ہیں۔ امریکہ نے ‘ جو یہاں طویل تسلط کے بعد دستبردار ہوا تھا ‘ ایک بار پھر اپنے ارادے واضح کرنے شروع کردئے ہیں۔ اس نے اپنا سب سے بڑا طیارہ بردار جہاز خلیج فارس کو روانہ کردیا ہے اور وہ ایک بار پھر عراق پر فضائی حملوں کے منصوبوں پر غور کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ حملے باغیوں کو نشانہ بنانے کے نام پر کئے جائیں گے لیکن اس سے عراق اور عراقی عوام کا ہی نقصان ہونے والا ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں عراق کی صورتحال کا اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے یقینی طور پر استحصال کرنے والی ہیں اور اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے وہاں حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی ضرورت ہے۔ فی الحال ایسی کوئی راہ نظر نہیں آتی جس کو اختیار کرتے ہوئے وہاں جنگ کو روکا جاسکے۔ مفادات حاصلہ وہاں جنگ مسلط کرتے ہوئے اغیار کو اپنا تسلط جمانے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ پہلے ہی سے تباہ حال ملک میں مزید تباہی کے اندیشوں کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ زدہ علاقوں کے عوام کو ابھی سے جو مشکلات پیش آ رہی ہیں اور وہ جس طرح سے نقل مقام کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں وہ ساری دنیا کے سامنے ہیں اور ان کی مدد کیلئے کوئی آگے آنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ اسلامی مملکت کے قیام کے نام پر جس طرح سے جنگ شروع کی گئی ہے وہ قابل قبول نہیں کہی جاسکتی۔ چاہے عسکری گروپس ہوں یا حکومت عراق دونوں ہی کو اپنے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرتے ہوئے جنگ کو ٹالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عسکری گروپس کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی اس طرح کی کارروائیوں کے نتیجہ میں صیہونی طاقتیں ایک بار پھر عراق میں اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے سرگرم ہوجائیں گی اور عراقی عوام کیلئے ایک بار پھر مصائب و آلام کا ایک طویل دور شروع ہوسکتا ہے۔ اس کی ذمہ داری راست عسکری گروپس پر عائد ہوگی۔ علاقہ میں اسرائیل کا وجود ایک سنگین خطرہ ہے اور اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے عراق میں نہ صرف امن قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ وہاں مملکت کے دفاع پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وہاں تفرقہ پردازی کی بجائے اتحاد کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر صیہونی و نصرانی طاقتیں تصادم کو ہوا دیتے ہوئے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گی۔