عراق میں چہارشنبہ کے دن پارلیمانی انتخابات پر تشدد کے سائے

بغداد۔ 27؍اپریل (سیاست ڈاٹ کام)۔ عراقی عوام چہارشنبہ کے دن پہلے قومی انتخابات کی رائے دہی میں حصہ لیں گے جو امریکی فوج کے تخلیہ کے بعد منعقد کی جائے گی جب کہ ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم زیادہ گہری ہوتی جارہی ہے اور اندیشے پیدا ہوگئے ہیں کہ ملک میں بڑے پیمانے پر خون ریزی ہوگی۔ وزیراعظم نوری المالکی نے ناقدین پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ اقتدار مرکوز کررہے ہیں اور اقلیتی گروپس کو نشانہ بنارہے ہیں تاکہ ان کی تیسری میعاد عراقی شہریوں کی مایوسی کی نذر ہوجائے جو بنیادی خدمات، بڑے پیمانے پر کرپشن اور بے روزگاری کی بلند سطح کی وجہ سے حکومت سے مایوس ہیں۔ ایک ماہ طویل انتخابی مہم کے دوران بغداد اور دیگر شہروں میں پوسٹرس چسپاں کئے گئے تھے۔ امیدوار سڑکوں پر نظر آرہے تھے۔ انھوں نے پُرشور جلوس نکالے اور ایک دوسرے کو برہمی کے عالم میں مباحث کا چیلنج کیا۔ امیدواروں پر حملے کئے گئے۔ انتخابی کارکن اور سیاسی جلوسوں پر انتخابات کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ملک کے چند علاقوں میں جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں، رائے دہی کا امکان نہیں ہے۔ وسطی بغداد کی کئی دکانیں بند ہوگئی ہیں، کیونکہ عہدیداروں نے ایک ہفتہ طویل تعطیلات کا اعلان کیا ہے تاکہ انتخابات کے موقع پر صیانتی انتظامات میں شدت پیدا کی جائے۔ فوج کے ارکان کل رائے دہی میں حصہ لیں گے تاکہ وہ چہارشنبہ کے دن مراکز رائے دہی پر آسانی سے تعینات کئے جاسکیں۔

آئندہ حکومت کے سامنے یہ ایک سنگین مسئلہ ہوگا۔ اسے عراق کے حرکیاتی چیالنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈائریکٹر برائے یوریشیاء مشاورتی گروپ ایہام کمال نے کہا کہ صیانتی انتظامات کے علاوہ تیل کی تنصیبات اور سنیوں، شیعوں اور کردوں کے فرقہ وارانہ تعلقات اور معاشی حقائق انتخابی موضوعات ہوں گے، حالانکہ رائے دہندوں نے شکایات کی ایک طویل فہرست تیار کی ہے جن میں برقی سربراہی اور ڈرینیج کی خدمات کے ناقص انتظامات سے لے کر جعلسازی کی روک تھام اور ملازمتوں کے حصول میں درپیش مشکلات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ تشدد دیکھا جاتا ہے۔ انتخابات امکان ہے کہ مالکی اور ان کی اقتدار پر برقرار رہنے کی کوششوں پر مرکوز رہیں گے۔

ان کے حریف جو مختلف فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرتے جارہے ہیں۔ اقلیتی طبقہ سنی مسلمان خاص طور پر کہتے ہیں کہ شیعہ وزیراعظم ان سے تعصب رکھتے ہیں۔ مالکی نے ادعا کیا ہے کہ ابتر ہوتی ہوئی صیانتی صورتِ حال کے پس پردہ بیرونی ہاتھ ہے جس کی وجہ سے مخلوط حکومت کے خلاف شکایات کی جارہی ہیں کہ وہ عوام کو نشانہ بنارہی ہے اور قانون سازی کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے، لیکن تجزیہ نگاروں اور سفارت کاروں کے بموجب ٹوٹا پھوٹا اور منقسم اپوزیشن اور کوئی واضح متبادل کی عدم موجودگی قومی انتخابات کا سرفہرست موضوع رہیں گے جو 2010ء کے بعد اور امریکی فوج کے دسمبر 2011ء میں تخلیہ کے بعد منعقد کئے جارہے ہیں۔