عراق میں دولت اسلامیہ سے نمٹنے ہمہ مسلکی فوج کی ضرورت : وائٹ ہاؤز

واشنگٹن27 مئی (سیاست ڈاٹ کام) وائٹ ہاؤز سے جاری ایک اہم بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں سے لڑنے کے لئے ایک ہمہ مسلکی فوج کی ضرورت ہے۔ وائٹ ہاؤز پریس سکریٹری جوش ارنیسٹ نے اپنی روزانہ کی بنیاد پر منعقد کی جانے والی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ عراق کے شیعہ علاقوں میں صرف شیعہ افواج ہی لڑائی میں مصروف ہے۔ یہ ایک عجیب سی بات ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ فوج میں ہر مسلک کے لوگوں کو نمائندگی ملنی چاہئے تاکہ وہ عراق کے ہر علاقے میں پھیل جائیں اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے دانٹ کھٹے کردیں۔ عراق میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے لئے ایسی مؤثر حکمت عملی تیار کرے جس سے اُن کی (دولت اسلامیہ) پسپائی کو یقینی بنایا جاسکے۔ مسٹر ارنیٹ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ عراق کے مختلف علاقوں پر دولت اسلامیہ کے قابض ہونے کی خبریں ہر روز مل رہی ہیں جو یقینا امریکہ اور اس کے حلیفوں کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ اگر اب بھی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی تو پورا عراق دولت اسلامیہ کے قبضہ میں جاسکتا ہے

اور اگر ایسا ہوا تو یہ عراقی عوام کے لئے ایک المیہ ہوگا۔ صدام حسین کی معزولی کے بعد امریکی افواج کی طویل ترین موجودگی اور عراق کے مختلف علاقوں کو تاراج کرنے کے بعد آج بھی عراقی شہری اس بات کے انتظار میں ہیں کہ ملک میں مکمل طور پر امن کا بول بالا ہو۔ یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ امریکہ کے حلیفوں میں ایک دو نہیں بلکہ پورے 60 ممالک شامل ہیں جو دولت اسلامیہ کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں جو خبریں مل رہی ہیں اُس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی بھی دولت اسلامیہ کی پیشرفت کو روکنے میں ناکام ہورہے ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ہتھیاروں کی کمی ہے؟ جذبہ جنگ کا فقدان ہے؟ یا پھر نتائج کی پرواہ کئے بغیر جنگ لڑی جارہی ہے؟ بہرحال وجوہات کچھ بھی ہوں اس کے لئے امریکہ کو ہی ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکہ نے افغانستان میں بھی اپنی فوجیں روانہ کی تھیں اور وہاں کے حالات میں کم و بیش 40% بہتری واقع ہوئی ہے۔