کاٹتے ہیں جس قدر اتنی ہی بڑھتی جائے ہے
’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی‘‘
عراق میں تشدد کی لہر
عراق میں تشدد کی نئی لہر شروع ہوگئی ہے اور مسلسل بم دھماکے اور خود کش حملوں کا سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ ان حملوں کے واقعات میں سینکڑوں افراد موت کی نیند سلادئے گئے ہیں۔ ہزاروں گھر اجڑ گئے ہیں اور خواتین بیوہ ہوگئی ہیں۔ بے شمار افراد شدید زخمی ہوکر زندگی بھر کیلئے معذور ہوگئے ہیں۔ چند ماہ تک حالات میں معمولی بہتری کے بعد اچانک ہی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور وہاں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ کہیں اچانک لب سڑک بم دھماکہ ہوتا ہے اور بے قصور اور انجان افراد اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ کہیں اچانک کسی شادی یا جنازہ پر نامعلوم افراد کی جانب سے خود کش حملہ کیا جاتا ہے اور درجنوں افراد موت کی نیند سلادئے جاتے ہیں۔ کہیں اچانک کہیں سے نامعلوم بندوق بردار نمودار ہوتے ہیں اور عوام کے ہجوم پر بے دریغ فائرنگ کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔ کہیں کوئی خود کش بم بردار دھماکو مادوں کو اپنے تن سے لپیٹے ہوئے مجمع میں گھس جاتا ہے اور خود کو دھماکہ سے اڑادیتا ہے اور وہاں بھی ہر طرف انسانی نعشیں اور زخمی پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں ایسے ہی خود کش بمبار پرہجوم بازاروں ‘ مارکٹوں اور بسوں وغیرہ میں داخل ہوکر دھماکہ کردیتے ہیں تو کہیں ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کہیں خواتین اس کی زد میں آ رہی ہیں تو کہیں معصوم بچے بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ عراق میں امریکی افواج کی موجودگی میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن اب یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ عراق سے امریکی افواج کی دستبرداری کے بعد اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حالانکہ امریکہ نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ عراق میں حالات کو دیکھتے ہوئے عراق میں حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہے لیکن وہ وہاں دوبارہ اپنی افواج روانہ نہیں کریگا۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اب بھی امریکہ اور اس کے حواری ممالک عراق میں اپنے مفادات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ کچھ مفاد پرست عناصر کو ورغلاتے اور انہیں استعمال کرتے ہوئے عراق میں اس طرح سے قتل و خون کا بازار گرم کر رہے ہیں۔ عراق کی حکومت ان حالات پر قابو کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ حالات مسلسل دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں
اور حکومت اپنی جگہ محض زبانی جمع خرچ کرنے میں مصروف ہے۔ ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عراق کی حکومت حالات کو قابو کرنے کی اہل نہیں ہوسکتی کیونکہ اس حکومت کے بھی بال و پر کٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عراق کے حالات کو بیرونی عناصر کی سازشوں نے انتہائی ابتر کردیا ہے۔ وہاں القاعدہ کے نام پر کوئی گروپ سرگرم ہے تو کوئی سنی گروپ حکومت کے خلاف نبرد آزما ہونے کا دعوی کرتا ہے تو کہیں مقامی قبائلی گروپس حکومت کی تائید میں دوسرے گروپس کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ ایسے عناصر ہیں جن پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہوسکتا اور حکومت اس معاملہ میں بے بس نظر آتی ہے۔ ان عناصر کو بیرونی امداد اور مدد کے امکانات بھی مسترد نہیں کئے جاسکتے کیونکہ یہ کئی بار واضح ہوچکا ہے کہ بیرونی طاقتوں کی مدد اور شہہ پر ہی یہ عناصر عراق کے حالات کو سدھرنے کا موقع دئے بغیر مسلسل حملے کرتے جا رہے ہیں۔ ان حملوں کا مقصد و منشا عراقی عوام کے مابین ایک دوسرے کے تعلق سے نفرتوں کو فروغ دینا اور انہیں ایک دوسرے سے قریب آنے کا موقع فراہم نہ کرنا ہے۔ اگر عراقی عوام کے مختلف گروپس ‘ جو فی الحال ایک دوسرے سے متحارب ہیں ‘ ایک دوسرے کے ساتھ آجائیں اور ملک میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کریں تو ملک میں حالات کو بہتری کی سمت مائل کیا جاسکتا ہے۔ ان گروپس اور قبائل کے مابین ایک دوسرے کے تعلق سے جو نفرت اور غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں اور پہلے سے موجود غلط فہمیوں کو جو بڑھاوا دیا جارہا ہے وہ بیرونی عناصر کی سازش کا حصہ ہے جو نہیں چاہتے کہ عراق کے حالات میں کوئی بہتری پیدا ہو اور وہاں کے عوام امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی گوشہ انکار نہیں کرسکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عراق میں حکومت کی جانب سے ان گروپس اور طبقات کے مابین اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے اور انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ جو خون خرابہ چل رہا ہے اس کا خاتمہ کیا جاسکے۔اس خون خرابہ کی وجہ سے عراق کی دشمن بیرونی طاقتوں کو وہاں حالات کو مزید بگاڑنے اور عراقیوں کے ہاتھوں عراقیوں کا خون بہانے کا موقع مل رہا ہے۔ خود عراق کے مقامی گروپس کو اس تعلق سے سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ طئے کرلینا چاہئے کہ آپسی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے بیرونی عناصر کو ان حالات کا استحصال کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائیگا۔ انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے وہ ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوتے ہوئے بیرونی طاقتوں کو عراق اور عراقی عوام کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور ان کی زندگیوں کو اجیرن بنانے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ اس طرح سے کوئی بھی گروپ عراق یا عراقی عوام کے تئیں ہمدردی کا ادعا نہیں کرسکتا جب تک کہ خون خرابہ کا سلسلہ ختم نہ ہوجائے۔ نہ صرف عراق کی حکومت کو بلکہ تمام متحارب گروپس کو اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنانے کی کوشش کرنا چاہئے تاکہ بیرونی اور عراق دشمن طاقتوں کو یہاں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کا موقع ملنے نہ پائے۔