عراق میں بڑھتا تشدد

کئے لاکھوں جتن ہم نے سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ہمارا خانۂ دل پھر بھی کیوں ویران رہتا ہے
عراق میں بڑھتا تشدد
عراق پھر ایک بار بدامنی، تشدد ، احتجاجی مظاہروں کی زد میں ہے ۔ امریکہ نے عراق میں اپنی بالادستی کی خاطر کئی ایک واقعات کو ہوا دینے والی کارروائیوں کو انجام دیا ہے تو اب اس کے نتائج دھیرے دھیرے بھیانک شکل میں سامنے آئیں گے۔ موافق امریکہ عراقی قیادت کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو اگر شدت ملنے والے عوامل سامنے آتے ہیں توپھر عراق دوبارہ تشدد کی آگ میں لپٹ جائے گا۔بصرہ میں وزیر اعظم حیدر العبادی کے استعفی کے لئے زور دیتے ہوئے دو طاقتور گروپس نے احتجاجی مظاہرے کئے تھے اس میں15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یہ احتجاج حکومت کی ناکامیوں اور عوام کو ایک اچھی پرسکون زندگی فراہم کرنے میں حکومت کی سنگین کوتاہیوں کے خلاف کیا جارہا ہے۔عراق میں جوکچھ واقعات ہورہے ہیں اس کے لئے ایران اور امریکہ کوذمہ دار قرار دینے والے گوشوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ عراق میں اپنی بالادستی کے لئے لڑائی کے لئے آمادہ امریکہ اور ایران کی وجہ سے عراق کی عام زندگی درہم برہم ہورہی ہے۔ حکومت نے اپنی کارکردگی کوبہتر بنانے کی کوشش نہیں کی اس لئے یہاں آنے والے دنوں میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ حکومت کو شکایت ہے کہ اس کو یہاں مناسب طریقہ سے کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے۔ بصرہ میں ایرانی قونصل خانہ کی جانب احتجاجی مظاہروں اور آتشزنی کے واقعہ کے بعد امریکی سفارتی مشن پر راکٹس فائرنگ کرنے کا واقعہ دونوں ملکوں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے گا۔ اس سے عراق کی آنے والی حکومت کا چہرہ بھی بدل سکتا ہے۔ اگرچیکہ تشدد پر قابو پانے کے لئے پولیس اور فوج کی بھاری تعداد کو تعینات کردیا گیا لیکن عوام کے اندر پیدا ہونے والے غم و غصہ اور غیض و غضب کو دور کرنے کے لئے جب تک ٹھوس قدم نہیں اٹھائے جائیں گے عراق کی داخلی صورتحال نازک ہوتی جائے گی۔ عراقی عوام کے اندر اپنی حکومت کے خلاف جب احتجاجی مظاہروں کی چنگاری بھڑک اُٹھی ہے تو یہ ایک خطرناک صورتحال کا اشارہ کرتی ہے۔بصرہ میں سرکاری نظم و نسق کی ناکامی آلودہ پانی کی سربراہی کے بشمول کئی شکایات کا بروقت ازالہ نہ کرنے کی وجہ سے عوام سڑکوںپر نکل آئے تھے۔ خراب اور آلودہ پانی پینے سے کئی افراد علیل ہوگئے اور احتجاجی مظاہروں میں شدت پیدا ہوگئی۔ احتجاج کے دوران تشدد میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد افسوسناک ہے۔ احتجاجیوں نے ایران کی حمایت والے پارلیمانی گروپ کی پارٹی کے بشمول کئی سیاسی پارٹیوں کے دفاتر کو آگ لگادی تھی۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف عوام کے اندر شدید غصہ فروغ پارہا ہے۔ امریکہ کے سفارتخانہ پر راکٹ فائرنگ کے واقعہ کو اگر خراب سگنل سمجھا جائے تو امریکہ کو اب عراق میں اسکی مخالفت کرنے والے گروپس سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایک غیر مستحکم عراقی معاشرہ میں آئے دن تشدد و کشیدگی کو ہوا دیئے جانے والے واقعات افسوسناک و تشویشناک ہیں۔ عراق میں اپنی بالا دستی حاصل کرنے کیلئے ہوسکتا ہے کہ امریکہ اور ایران ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہونے کی کوشش کریں، لیکن اس سے صرف عراقی عوام کا ہی نقصان ہوگا۔ عراق میں گذشتہ 3 سال سے دولت اسلامیہ کے خلاف جاری جنگ نے عوام الناس کی عام زندگی کو مفلوج بنادیا ہے۔ گذشتہ مئی کے انتخابات میں حکومت واضح اکثریت سے منتخب ہوئی تھی ، اس کے ساتھ ہی صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے عراق کی نئی حکومت سے دوستی کرتے ہوئے ایران کے خلاف اپنے تنازعات کوعراق کی سرزمین سے ہوا دینے کی کوشش کی ہے تو یہ صورتحال کسی بھی ملک کے حق میں بہتر نہیں ہوگی۔ نیوکلیئر معاہدہ کے منسوخ کردینے کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ چل رہے ہیں تو اس کشیدگی کا سایہ عراق کے عوام پر پڑنے نہ دیا جانا چاہیئے۔ 2003 میں صدر صدام حسین کو معزول کرنے کے بعدعراق پر امریکہ اپنی بالا دستی اور ایران اپنے اثر و رسوخ کو فروغ دینے کوشاں ہیں‘ لیکن دو بیرونی ملکوں کی وجہ سے اگر عراق کے عوام کی روز مرہ کی زندگی مفلوج ہوتی ہے تو عراقی عوام کو سڑکوںپر نکل آنے کیلئے مجبور ہونا پڑے گا۔ گذشتہ چند روز سے جاری کشیدگی اور تشدد کے واقعات کو ہوا ملتی ہے تو پھر عراق خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔ آیابیرونی طاقتیں شام کے بعد عراق کو خانہ جنگی کی جانب ڈھکیلنا چاہتی ہیں۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے علمبرداروں کو عراقی عوام کے حق میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔