بغداد۔ یکم جولائی (سیاست ڈاٹ کام) عراق کی نومنتخبہ پارلیمنٹ کا اجلاس آج شوروغل اور ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا اور نئی حکومت اور وزیراعظم کا انتخاب نہیں ہوسکا۔عسکریت پسندوں کی جارحانہ کارروائی سے عراق کے ٹکڑے ہوجانے کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ عالمی قائدین اور نامور علمائے دین نے عراق کے گروہوں میں منقسم سیاست دانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متحد ہوجائیں، کیونکہ عسکریت پسندوں کی پیشرفت کے دوران 2,000 سے زیادہ افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ ملک مختلف مسلک کی آبادیوں کی بنیاد پر صف بندی کا شکار ہے۔ عراق نے امریکہ سے فضائی حملوں کی اپیل کی تھی اور روس سے 12 سے زیادہ جنگی طیارے روس سے خریدے جاچکے ہیں تاکہ فضائیہ کی طاقت میں اضافہ کیا جاسکے، جبکہ عسکریت پسند ایک کے بعد شہروں اور قصبات پر قبضہ کرتے جارہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بموجب عراق کی خانہ جنگی میں ماہِ جون مہلک ترین مہینہ ثابت ہوا جبکہ حکومت کو اسلامی انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے میں سخت مشکل پیش آرہی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں جنگجوؤں نے اسلامی مملکت عراق و لیوانٹ کی تحریک کی قیادت کی تھی اور پورے عراق میں تیز رفتار جارحانہ کارروائی کی تھی جس کی وجہ سے 2011ء میں امریکی فوج کے تخلیہ کے بعد عراق بحران کا شکار ہوگیا۔ آج پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی نااتفاقی اُبھر کر سامنے آگئی جس میں واک آؤٹ کے مناظر، زبانی تکرار اور بڑے پیمانے پر ملک کے دستور کے بارے میں اُلجھن پیدا ہوگئی۔ نوری المالکی گروپ کے رکن پارلیمنٹ خادم السیاصی نے دھمکی دی کہ عراقی کُردوں کے سَر کچل دیئے جائیں گے۔ اجلاس کی صدارت کرنے والے رکن پارلیمنٹ مہدی حافظ نے کہا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس 8 جولائی کو دوبارہ منعقد کیا جائے گا
تاکہ سیاسی قائدین، سینئر عہدوں کے سلسلے میں کسی اتفاق رائے پر پہنچ سکیں۔ نوری المالکی کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ سے بے دخلی کے اندیشوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تمام تینوں بڑے طبقات کے سینئر قائدین اُن پر تنقید کررہے ہیں اور انہوں نے اُن پر فرقہ پرستی، شراکت داروں کو نظرانداز کرنے اور صیانتی صورتِ حال کو ابتر بنانے کا الزام عائد کیا ہے جس کے نتیجہ میں 9 جون کو عسکریت پسندوں نے جارحانہ کارروائی کی، تاہم موجودہ وزیراعظم کو اب بھی اُمید ہے کہ وہ عہدہ پر برقرار رہیں گے،کیونکہ 30 اپریل کو منعقدہ پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی نے بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیراعظم کے عہدہ کیلئے سخت مسابقت جاری ہے۔ واضح طور پر سب کو ساتھ لے کر چلنے والے قائد کو ہی وزیراعظم منتخب کیا جاسکتا ہے۔