سیاسی بحران میں اضافہ، بعض ارکان پارلیمنٹ کو زدوکوب ، عراقی پرچم لہرائے گئے
بغداد ۔ یکم ؍ مئی (سیاست ڈاٹ کام) عراق کے شیعہ عالم دین مقتدر الصدر کے حامیوں نے بغداد کے گرین زون میں داخل ہوکر احتجاج کیا۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایمرجنسی کا اعلان کردیا گیا۔ احتجاجیوں نے پارلیمنٹ میں گھس کر اس پر قبضہ کرلیا۔ بغداد کے قلعہ بند علاقہ گرین زون میں ہنگامہ کرنے کے بعد یہ احتجاجی پارلیمنٹ کی عمارت پر چڑھ گئے۔ گرین زون علاقہ میں امریکی سفارتخانہ کے بشمول کئی اہم عمارتیں موجود ہیں۔ عراق میں سیاسی بحران میں شدت پیدا ہونے کے بعد ہی احتجاجیوں نے پرچم لہراتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر بعض ارکان کو زدوکوب کیا۔ عراقی ٹیلیویژن پر اس واقعہ کے مناظر راست ٹیلی کاسٹ کئے جارہے تھے۔ احتجاجیوں نے حکومت سے اصلاحات لانے کا مطالبہ کیا تھا۔ پارلیمنٹ کے اندر پرچم لہراتے ہوئے یہ لوگ توڑپھوڑ بھی کرتے ہوئے دیکھے گئے۔ کرسیوں کو اٹھا کر پھینکا جانے لگا۔ بعض ارکان پارلیمنٹ کو دبوچ کر انہیں زدوکوب کیا گیا اور بعض پر پرچم پھینک کر مارا گیا۔ اس ہنگامہ کے دوران عراقی پارلیمنٹ کے ارکان عمارت سے فرار ہوگئے۔ ان کا تعاقب کرتے ہوئے مظاہرین نے کاروں کے شیشے توڑ دیئے۔ مابقی پارلیمنٹ کے اندر پھنسے ہوئے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی جانوں کا خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ ان ارکان پارلیمنٹ نے کہا کہ احتجاجوں کے غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے انہیں خوف ہورہا ہیکہ یہ لوگ ہمیں جان سے مار ڈالیں گے۔
بغداد آپریشنس کمانڈ نے کہا کہ دارالحکومت بغداد کے تمام سڑکوں کی ناکہ بندی کردی گئی ہے۔ امریکی سفارتخانہ کے عہدیدار نے بتایا کہ ان کی عمارت سے عملہ کسی بھی رکن کو باہر جانے نہیں دیا گیا۔ یہ عمارت عراقی پارلیمنٹ کی عمارت سے ایک میل دور ہے۔ احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں کے لیڈروں نے احتجاجیوں پر زور دیا کہ وہ سفارتخانوں پر حملے نہ کریں۔ محفوظ علاقوں میں احتجاجیوں کا گھس آنا اس بات کا ثبوت ہیکہ عراق کے اندر گذشتہ چند ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ وزیراعظم حیدرالعابدی اپنی کابینہ میں ردوبدل لانے کی کوشش کرتے ہوئے مظاہرین کے مطالبہ کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مظاہرین عراق کے طاقتور شیعہ عالم دین مقتدرالصدر کے کٹر حامی بتائے گئے ہیں۔ عراقی پارلیمنٹ کے اندر کئی مرتبہ منقسم ارکان پارلیمنٹ میں گھمسان لڑائی بھی ہوئی ہے اور ارکان نے ایک دوسرے پر کئی مرتبہ پانی کی بوتلیں پھینک کر ماریں اور گھونسے بازی بھی کی گئی۔ سیاسی بے چینی میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ عراق کو ہمہ رخی بحرانوں کا سامنا ہے۔
عراقی حکومت کا کہنا ہیکہ عراق کے حالات اس تاریخی ملک کو نئے دور میں ڈھکیل رہے ہیں۔ عراقی حکومت اس وقت انتہاء پسند گروپوں کے علاوہ معیشت کو بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ پارلیمنٹ کی اصل لابی میں مظاہرین نے نعرے بلند کرتے ہوئے پرچم لہرائے۔ ٹیلیویژن پر راست منظر پیش کیا گیا۔ یہ لوگ نعرہ لگاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ 13 سال سے ہمیں لوٹا جارہا ہے۔ احتجاجوں کا اصل مطالبہ سیاسی کوٹہ نظام برخاست کرنا ہے۔ امریکی زیرقیادت 2003ء کی جنگ کے بعد سیاسی کوٹہ نظام قائم کیا گیا تھا یہاں پر 2003ء کے بعد سے سیاسی نظام درہم برہم ہے۔ کردش قانون ساز شاون الداودی نے کہا کہ عراق کے موجودہ حالات کیلئے سب سے بڑا الزام امریکہ پر عائد کیا جاتا ہے۔ امریکہ نے عراق کو بحران کے دلدل میں ڈھکیل کر چلا گیا۔ قبل ازیں دن میں وزیراعظم کے طلب کردہ اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کے اندر ارکان پارلیمنٹ کی تعداد ناکافی تھی۔ فورم کی کمی کے باعث دوپہر تک کارروائی ملتوی کردی گئی لیکن دوپہر کے بعد کارروائی شروع ہونے سے قبل عراق میں امریکی فوج کی موجودگی کی مزاحمت کرنے والے ایک لیڈر نے نجف شہر میں پریس کانفرنس طلب کرکے کہا کہ وہ اصلاحات کے خلاف ہیں۔ میں عراقی عوام کے اندر بہت بڑی تبدیلی آنے کا انتظار کررہا ہوں۔ احتجاجی مظاہروں کی اطلاع ملتے ہی جن میں زیادہ تر مقتدر الصدر کے حامی تھے۔ سیکوریٹی حملہ نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کرلیا۔ آن لائن پر پیش کردہ ایک ویڈیو میں بتایا گیا ہیکہ احتجاجی فوجیوں گاڑیوں پر سوار ہوکر نعرے لگا رہے ہیں۔ کردش قانون ساز نے کہاکہ احتجاجیوں نے ان کی کار پر حملہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی لیکن وہ پارلیمنٹ سے بچ کر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ عراق میں شدید بحران پایا جاتا ہے۔ امریکی عہدیداروں نے بتایا کہ عراق کے حالات دولت اسلامیہ کے خلاف حکومت کی لڑائی میں منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ آج جو کچھ بھی ہوا عوام کے غم و غصہ کے پھوٹ پڑنے کا اشارہ تھا۔ یہ ایک نئے انقلاب کی شروعات ہے۔