عدم کارکردگی اور عوام سے دوری پرانے شہر میں رائے دہی کے فیصد میں کمی کی اہم وجہ

عوام کا نمائندوں سے کوئی قلبی لگاؤ نہیں، سابق میں صد فیصد رائے دہی کی مثالیں موجود،امان اللہ خان کی مقبولیت مثالی

حیدرآباد۔/2مئی، ( سیاست نیوز) حیدرآباد کے دو لوک سبھا اور 14اسمبلی حلقوں میں رائے دہی کے کم فیصد پر ایک طرف سیاسی پارٹیاں تو دوسری طرف سیاسی مبصرین مختلف اندازے قائم کررہے ہیں۔ رائے دہی کے موقع پر نمائندہ ’سیاست‘ نے مختلف اسمبلی حلقوں کے دورے کے موقع پر عوام سے ربط قائم کرتے ہوئے رائے دہی میں عدم دلچسپی کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر سماجی اداروں کی جانب سے عوام میں رائے دہی کے حق میں شعور بیداری کیلئے زبردست مہم چلائی گئی اس کے باوجود حیدرآباد اور سکندرآباد میں رائے دہی کا فیصد 53سے زائد نہیں بڑھ سکا۔ الیکشن کمیشن اسے اسکولوں کو تعطیلات کے سبب تفریح کیلئے خاندانوں کی منتقلی اہم وجہ قرار دے رہا ہے جبکہ بعض گوشے شدید گرمی کو کم رائے دہی کا سبب بتارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوامی نمائندوں کی عدم کارکردگی اور عوام سے ان کی بے تعلقی رائے دہی میں کمی کی اہم وجہ رہی ہے۔ اکثر رائے دہندوں کا کہنا تھا کہ عوامی نمائندے صرف پانچ سال میں ایک مرتبہ ان سے رجوع ہوتے ہیں اور وہ بھی ووٹ حاصل کرنے کیلئے۔ اس کے برخلاف پانچ برسوں کے دوران عوامی مسائل کی یکسوئی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر عوامی نمائندوں سے راست ربط قائم کیا جائے تو وہ اپنے کسی نمائندہ سے مسئلہ کو رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عہدہ پر رہتے ہوئے پانچ برس تک عوامی نمائندہ عوام سے دوری اختیار کرتا ہے اور اس کا منتخب کرنے والے رائے دہندوں سے کوئی ربط نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور عوامی نمائندہ کے درمیان کوئی تعلق خاطر اور لگاؤ باقی نہیں رہا۔ اگرچہ دیہی علاقوں میں عوامی نمائندے اور سیاسی قائدین اکثر و بیشتر عوام سے ربط میں رہتے ہیں لیکن شہری علاقوں کی صورتحال مختلف ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے 14اسمبلی حلقوں کے نمائندوں کے بارے میں رائے دہندوں کا یہی کہنا تھا کہ ایر کنڈیشنڈ گاڑیوں اور اے سی چیمبرس میں رہنے والے نمائندوں اور ان کی باتوں پر اب بھروسہ نہیں۔پرانے شہر کے اسمبلی حلقوں میں کم رائے دہی کے فیصد نے سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو اُلجھن میں مبتلاء کردیا ہے۔ بعض حلقے تو ایسے ہیں جہاں موجودہ رکن اسمبلی اپنی کامیابی کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ جس قدر بھی رائے دہی ریکارڈ کی گئی اس میں لمحہ آخر میں کی گئی بوگس رائے دہی کا فیصد زیادہ ہے۔ شہر کے لوک سبھا حلقہ حیدرآباد اور اسمبلی حلقہ جات ملک پیٹ، کاروان، گوشہ محل، چارمینار، چندرائن گٹہ، یاقوت پورہ اور بہادر پورہ میں رائے دہی کی سُست رفتاری اور لمحہ آخر میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان حلقہ جات میں حقیقی رائے دہی بمشکل 25فیصد رہی اور مابقی 25فیصد بوگس رائے دہی کا حصہ ہے۔ گزشتہ عام انتخابات میں بھی رائے دہی کا یہی رجحان دیکھا گیا اور نمائندے صرف 18تا20فیصد عوام کی تائید سے منتخب ہورہے ہیں اور رائے دہندوں کی اکثریت نے خود کو رائے دہی کے عمل سے دور رکھتے ہوئے عملاً عوامی نمائندوں سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ پرانے شہر کے اسمبلی حلقہ جات میں انتخابی مہم کے دوران اگرچہ ہزاروں کا ہجوم دیکھا گیا لیکن اس ہجوم کو ووٹ میں تبدیل کرنے میں امیدوار ناکام رہے۔ پرانے شہر کے عوام کا احساس تھا کہ انہیں رائے دہی سے اس لئے بھی دلچسپی نہیں کیونکہ ان کے ووٹ نہ دینے سے کچھ فرق پڑنے والا نہیں۔ایسا محسوس ہورہا تھا کہ عوامی نمائندوں اور امیدواروں سے عوام کو کوئی قلبی لگاؤ نہیں ہے۔ بعض مقامات پر خود امیدواروں نے عوام کو رائے دہی میں حصہ لینے کی ترغیب دی لیکن عوام نے ان کی درخواست کو مسترد کردیا۔ پرانے شہر کے پولنگ اسٹیشنوں پر دوپہر تک کسی قدر حقیقی رائے دہندے دیکھے گئے اس کے بعد رائے دہی کے اختتام تک جو کچھ کیا گیا اسے جمہوریت کا قتل ہی کہا جاسکتا ہے۔ پرانے شہر میں سابق میں ایسے عوامی نمائندے رہ چکے ہیں جن کی عوامی مقبولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پرانے شہر کے حلقوں میں حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ رائے دہی کے معاملہ میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے۔ جس وقت اس حلقہ کی نمائندگی جناب محمد امان اللہ خاں کررہے تھے ہر الیکشن میں رائے دہی کا فیصد 90سے زائد ہوتا۔ بعض الیکشن مراکز پر مقررہ رائے دہندوں کی تعداد سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ جس پر الیکشن کمیشن کو وہاں دوبارہ رائے دہی کرانی پڑی۔ بعض مرتبہ 100فیصد رائے دہی کی صورت میں دوبارہ رائے دہی کا حکم دیا گیا لیکن دوبارہ بھی 100فیصد رائے دہی ہوئی۔ اس کی وجہ عوام کا اپنے نمائندہ سے تعلق خاطر تھا اور جناب امان اللہ خاں بھی 18گھنٹے عوام کے درمیان موجود ہوتے۔ غریب اور سلم بستیوں میں ہر معمولی سی خوشی اور غم کے موقع پر وہ دکھائی دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ ان کے حق میں رائے دہی میں حصہ لینے والوں میں جوش و خروش دیکھا جاتا۔ جب تک بھی انہوں نے حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ کی نمائندگی کی ان کی کارکردگی دیگر حلقوں کے مقابلہ نمایاں رہی۔ ان کی جانب سے انجام دیئے گئے ترقیاتی کام آج بھی ان کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس زمانے میں امیدوار کو آج کی طرح کروڑوں روپئے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی جبکہ آج کروڑہا روپئے خرچ کرنے کے باوجود نمائندے اپنی عدم مقبولیت اور عدم کارکردگی کے باعث 50فیصد بھی حقیقی رائے دہی کرانے میں ناکام ہیں۔ اس طرح کی صورتحال حقیقی نمائندوں کے انتخاب میں رکاوٹ بن سکتی ہے اور صرف سرمایہ دار اور طاقت رکھنے والے افراد ہی منتخب ہوتے رہیں گے۔اس طرح کا الیکشن جمہوریت کیلئے بھی ٹھیک نہیں۔2014 انتخابات کے بعد منتخب ہونے والے نمائندوں کو عوامی خدمت کیلئے وقف ہونا پڑیگا کیونکہ اس کے بغیر رائے دہی کے فیصد میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ عوام کو بھی چاہیئے کہ وہ رائے دہی سے دور رہنے کے بجائے آئندہ انتخابات میں پولنگ بوتھ پہنچ کر تمام امیدواروں کو مسترد کرنے سے متعلق بٹن دبائیں تاکہ ان کی ناراضگی دنیا کے سامنے آشکار ہوسکے۔