عدلیہ و قانون میں سیاسی مداخلت

ہے بجا ان کی شکایت لیکن اس کا کیا علاج
بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرالیتے ہیں لوگ
عدلیہ و قانون میں سیاسی مداخلت
ہندوستانی سیاست ، جمہوریت ، دستوری ذمہ داریاں اور قانونی فرائض کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے واقعات نے ایک افسوسناک صورتحال پیدا کردی ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف تحریک مواخذہ کی نوٹس کو مسترد کر کے آیا صدر نشین راجیہ سبھا و نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو نے کوئی غلط فیصلہ کیا ہے ۔ یہ بحث طول پکڑے گی ۔ کانگریس زیر قیادت اپوزیشن پارٹیوں نے چیف جسٹس آف انڈیا کی کارکردگی پر انگشت بدنمائی کے ساتھ مواخذہ کی تحریک پیش کی تھی جب کہ اس تحریک کا جائزہ لینے کی گنجائش موجود تھی تو انہوں نے اس پر غور کیے بغیر ہی مسترد کردیا ۔ ان کا یہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا ہے یا سیاسی طرفداری کی خراب مثال پیش کی گئی ہے ۔ نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو نے اپوزیشن کی تحریک کو شواہد اور ٹھوس الزامات سے عاری قرار دے کر مسترد کیا ہے تو اس پر سوال اٹھا رہا ہے کہ آیا اگر اپوزیشن کی جانب سے ٹھوس ثبوت پیش کیا جائے تو وہ مواخذہ کے لیے تیار ہیں ؟ چیف جسٹس آف انڈیا کو ان کے فرائض سے علحدہ کرنے کے لیے دستوری جواز پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اپوزیشن نے 64 ارکان کی دستخط کے ساتھ تحریک پیش کی تھی اس تحریک پر غور کرنے کے بجائے مسترد کردیا جائے تو پھر صدر نشین راجیہ سبھا نے قانونی مشاورت نہیں کی یا پھر انہوں نے قانونی پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد بھی یہ فیصلہ لیا ہے تو پھر ان کی یہ ذاتی کوشش کہی جاسکتی ہے ۔ اپوزیشن نے اپنی تحریک کے استرداد کے بعد اب سپریم کورٹ سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا اسے سپریم کورٹ سے بھی انصاف مل سکے گا ۔ کیوں کہ جن قواعد اور ضوابط کا تقاضہ کیا جارہا ہے اس پر ہوم ورک کیے بغیر قدم اٹھانے کا مطلب سوائے ناکامی کے کچھ نہیں ہوگا ۔ صدر نشین راجیہ سبھا نے تحریک میں جن خامیوں اور خرابیوں کا حوالہ دیا ہے یہی بات سپریم کورٹ میں بھی دہرائی جاسکتی ہے ۔ اپوزیشن کو سب سے پہلے اپنی تحریک کے مسترد کردئیے جانے کے قانونی جواز پر غور کرنا اور قانونی ماہرین سے صلاح و مشورہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف اپوزیشن کی تحریک سے قانونی ، سیاسی اور سماجی ماحول کو گرما دیا ہے ۔ ہندوستان میں جمہوری اداروں اور دستوری عہدوں پر اٹھنے والی انگلیوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تو یہ صد افسوس کی بات ہے ۔ مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کو پریشان کرنے یا عدلیہ میں من مانی طریقہ سے فرقہ پرست ذہنیت کے حامل ججس کے تقررات کو یقینی بنانے کے لیے بیجا مداخلت کی ہے تو اس پر اپوزیشن خاموش نہیں بیٹھے گی ۔ سپریم کورٹ چیف جسٹس کے خلاف مواخذہ کی تحریک پیش کرنے کا مقصد یہی تھا کہ جن کے خلاف بے شمار شکایات سامنے آرہی ہیں تو ان کا جائزہ لینا حکومت وقت اور دستوری ذمہ داروں کا فریضہ ہے ۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت اپنے ہر کام اور فیصلہ کو ہی حرف آخر سمجھ کر ماحول کو گرما رہی ہے ۔ اپوزیشن کو خاطر میں نہ لانا اور اس کی شکایات کو نظر انداز کردینے کا مطلب مطلق العنانی کی فضا کو ہوا دینے کی کوشش ہوسکتی ہے ۔ عدلیہ کے وقار اور مرتبہ کی دھجیاں اڑانے والی حرکتوں سے باز رکھنے کے لیے ہی اپوزیشن نے متحدہ طور پر تحریک مواخذہ پیش کی تھی ۔ اس کا بغور جائزہ لے کر معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جاتا تو صدر نشین راجیہ سبھا کی کارروائی کو خراب مثال کی تعریف میں نہیں لایا جاسکتا تھا ۔ اب تحریک کے استرداد کی وجوہات پر بحث ہوگی اور تحریک کو مسترد کردئیے جانے کو ایک بدترین علامت سمجھا جائے گا جو کسی بھی جمہوری ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔ کسی بھی تحریک کو مسترد کرنے کا ایک ضابطہ اور طریقہ کار ہوتا ہے اس کا جائزہ لیئے بغیر ہی اسے نظر انداز کردیا جانا ایک ذمہ دار عہدہ کے شایان شان نہیں ہے ۔ اپوزیشن کے لیے یہ موضوع دہکتی آگ کی مانند بن گیا ہے تو اسے پوری نرمی اور ہوشمندی کے ساتھ مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے قانونی اصولوں اور پیچیدگیوں کا جائزہ لیتے ہوئے قدم اٹھانے کی ضرورت ہوگی ۔ سپریم کورٹ میں عدلیہ کے کام کاج اور تقررات کی ذمہ داری چیف جسٹس آف انڈیا کی ہوتی ہے تو اس میں سیاسی مداخلت کاری نہیں ہونی چاہئے ۔ لیکن یہ الزام ہے کہ دیپک مشرا نے ججس کے تقررات میں سیاسی دباؤ کے مطابق فیصلہ کیا ہے ۔ ججس کے انتخاب کا موجودہ عمل اگر ناقص ہے تو اس کو بہتر بنایا جاسکتا ہے تاکہ چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف مواخذہ پر زور دیا جائے ۔ اب اپوزیشن کی تحریک مواخذہ مسترد ہوچکی ہے تو اس تنازعہ کا اختتام جلد نہیں ہوگا اور آخر میں کامیابی کسی کو بھی نہیں ملے گی ۔ بلکہ بدنامی تو صرف عدالت عدلیہ کی ہوگی جو اس وقت سیاسی رنگ میں رنگ دی گئی ہے۔