تاریخی ہاسپٹل کی تزئین نو میں ہی تہذیب کا تحفظ ، انہدام کا خیال ترک کردینے چیف منسٹر پر زور ، انورادھا نائک سے بات چیت
حیدرآباد ۔ 3 ۔ اگست : ( نمائندہ خصوصی) : عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا شمار نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشیا کے قدیم ترین ہاسپٹلوں میں ہوتا ہے ۔ اس کی خوبصورت طرز تعمیر وسیع و عریض وارڈس کا مشاہدہ کرنے والا کوئی بھی بیرونی سیاح یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اسطرح کے وسیع و عریض ہاسپٹلوں کا تصور تو برطانیہ میں پایا جاتا ہے جہاں کے اکثر قدیم اور مشہور و معروف ہاسپٹل اور یونیورسٹیز انتہائی قدیم ترین عمارتوں میں کام کرتے ہیں لیکن وہاں کی حکومت اور سیاستدانوں میں اپنے ملک کے تاریخی آثار کے تحفظ کے لیے غیر معمولی دلچسپی پائی جاتی ہے ۔ جس کے نتیجہ میں آج بھی وہ ہاسپٹل بڑی شان و شوکت سے کھڑے ہیں ۔ ایک بات سب سے اہم ہے کہ جو قوم اپنے تاریخی آثار کا تحفظ کرتی ہے ۔ اس کی تہذیب و تمدن کو دنیا میں اہمیت دی جاتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرتے ہوئے اس مقام پر ایک عصری اور تمام سہولتوں سے لیس ہاسپٹل قائم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کے اعلان پر عوامی و سیاسی حلقوں میں شدید تنقید کی جارہی ہے ۔ نمائندہ خصوصی نے شہر کی ممتاز میوزیم آرکیٹکٹ انورادھا نائک سے بات کی جو سماجی جہدکاروں ، تاریخی عمارتوں کے تحفظ میں مصروف ماہرین تعلیم و ماہر آثار قدیمہ اور ڈاکٹروں کے ساتھ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے سے متعلق کے سی آر کے فیصلہ کی شدت سے مخالفت کررہی ہیں ۔ انورادھا نائک کے مطابق حکومت کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اس تاریخی ہاسپٹل کی موثر انداز میں دیکھ بھال کی بجائے اس کے وجود کو مٹانے کا ہی سوچ رہی ہے ۔ حالانکہ رود موسیٰ کے دونوں جانب موجود عثمانیہ جنرل ہاسپٹل اور ہائی کورٹ کی خوبصورت عمارتیں حیدرآباد کے حسن میں چار چاند لگانے کا باعث بنی ہوئی ہیں ۔ انورادھا نائک نے جو عثمانیہ جنرل ہاسپٹل میں کارڈیالوجی یونٹ قائم کرنے والے ماہر امراض قلب ڈاکٹر سدھیر نائک کی دختر ہیں اور وہ ہمارے شہر کی کئی ایک تاریخی عمارتوں کی تزئین نو کے پراجکٹس میں اہم رول ادا کرچکی ہیں ۔ ان پراجکٹس میں چومحلہ پیالیس ، ہائی کورٹ ( آندھرا پردیش ہائی کورٹ کے قطب شاہی فاونٹین کی تزئین نو ) ، عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کے افضل گارڈن کی شان کی بحالی ، مچھلی مارکٹ بیگم بازار ، دوماکنڈہ اور نظام میوزیم شامل ہیں ۔ انورادھا نائک کے خیال میں عثمانیہ جنرل ہاسپٹل حیدرآباد کے سیکولر روایات کی بہترین علامت ہے ۔ اس کے علاوہ یہ خوبصورت عمارت دنیا کو طبی لحاظ سے شہر حیدرآباد کی اہمیت سے واقف کرانے کا ایک ذریعہ ہے ۔ ہندوستان میں ایسے بہت کم ہاسپٹل ہیں جو وسیع و عریض اراضی پر محیط ہونے کے ساتھ ساتھ فن تعمیر کے لحاظ سے بھی اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آصف جاہی حکمرانوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں بلالحاظ مذہب و ملت رعایا کا خاص خیال رکھا ۔ ہاسپٹل ، شفا خانے ، تحقیقی مراکز ، کتب خانے وغیرہ قائم کئے جو آج بھی ہندوستان کی شان و وقار کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔ انورادھا نائک کا یہ بھی کہنا تھا کہ خود ہمارے شہر میں 400 سال سے زائد قدیم عمارتیں ہیں ان کی اچھی دیکھ بھال کے باعث ہی ان کی حالت اچھی ہے جب کہ تقریبا 90 سالہ قدیم عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کی دیکھ بھال سے غفلت برتی گئی ۔ وہ چاہتی ہیں کہ حکومت ڈاکٹروں ، انجینئروں اور ماہرین آثار قدیمہ اور دیگر شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دے اور اس ٹیم کی سفارشات کی بنیاد پر عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کا تحفظ کیا جائے کیوں کہ یہ ہاسپٹل حیدرآباد اور تلنگانہ کی تاریخ کا گواہ ہے ۔ دیکھا جائے تو ہماری غفلت کے نتیجہ میں ہی ہاسپٹل کی یہ حالت ہوئی اور بہ الفاظ دیگر وہ آئی سی یو میں پہنچ گیا ۔ انورادھا نائک نے چیف منسٹر مسٹر کے سی آر سے خواہش کی کہ وہ عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کو منہدم کرنے کا منصوبہ ترک کردیں کیوں کہ عثمانیہ دواخانہ کو منہدم کرنے کا مطلب حیدرآبادی تہذیب کے ایک غیر معمولی ستون کو منہدم کرنا ہوگا ۔ بہر حال وہی اقوام دنیا میں سرخرو ہوتی ہیں جو اپنے تاریخی آثار کو تلف نہیں کرتیں بلکہ اس کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہوجاتی ہیں ۔۔