پھر کھلونے آگئے بازار میں
پھر بھی میرا دل بہلتا ہی نہیں
عبوری ریلوے بجٹ
وزیرریلوے ملکارجن کھرگے کی عبوری بجٹ تقریر نئے ٹرین سرویس شروع کرنے اور معمول کے چند اقدامات اور پراجکٹس کے ملے جلے دلچسپ الفاظ پر مشتمل تھی۔ ریلوے کیلئے اس عصری دنیا کے تقاضے کس طرح پورے کرنے ہوں گے اس کا کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا گیا۔ ملکارجن کھرگے کو اس قلمدان پر خدمت انجام دیتے ہوئے صرف 8 ماہ ہوئے ہیں۔ ملک کی سماجی اور معاشی ترقی میں ریلویز کے خدمات کے بارے میں مختصر اظہارخیال کے سواء وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ ہندوستانی ریلوے کو دنیا کی سب سے اعلیٰ ترین خدمات میں پانچواں مقام بتاتے ہوئے کہا گیا کہ ہندوستانی ریل کا نٹ ورک وسیع ہے وہ روزانہ 23 ملین افراد کو ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچاتا ہے۔ 7083 اسٹیشنوں سے روزانہ 2.65 ملین ٹن سامان منتقل کرنا اور زائد از 64000 کیلو میٹر روٹ پر 7000 ٹرینیں چلانا بلاشبہ ایک کمال کی بات ہے۔ وزیر ریلوے نے اپنے علی الحساب بجٹ میں مسافر کرایوں اور شرح بار برداری میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ انہوں نے بھی ہمیشہ کی طرح نئی ٹرینوں کا اعلان کیا۔ ماضی میں جتنے بھی ریلوے منسٹرس آئے ہر سال نئی ٹرینوں کا اضافہ کیا ہے مگر ان میں سے بیشتر ٹرینیں صرف ریلوے بجٹ کے صفحات تک ہی محدود رہے۔ اس مرتبہ علی الحساب بجٹ میں بھی ملکارجن کھرگے نے 72 نئی ٹرینوں کا اعلان کیا جن میں 17 پریمیم ٹرینس اور 38 ایکسپریس ٹرینس، 10 پاسنجر ٹرینس،4 مضافاتی ٹرینس اور 3 ڈیزل لوکوموٹیو انٹرسٹی ٹرینس برائے اوسط مسافت شامل ہیں۔ ریلوے کو دودھ دینے والی گائے کہا جاتا تھا مگر حالیہ برسوں میں اس کو بھی خسارہ کی لعنت لگ گئی ہے۔ اس لئے بجٹ میں کمی واقع ہونے کا اشارہ دیا گیا۔ اس خسارہ کے باوجود بعض کی نظروں ریلوے اب بھی فربہ جسم والی مویشی سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے اس کو اندھادھند طریقہ سے لوٹنے کے بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ بجٹ میں 2,207 کیلو میٹر کی نئی ریلوے لائنس بچھانے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن جو پہلے ہی سے نئی لائن بچھائے یا مختلف مقامات پر ریلوے لائنس کو ڈبل کرنے کا کام برسوں سے سست رفتاری کا شکار ہے۔ 2010ء سے ریلوے کو مقبول عام اسکیمات کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
مسافر کرایوں پر سبسیڈی دینے سے کرایوں کے ذریعہ ہونے والی آمدنی گھٹ گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ریلوے کا نٹ ورک اس ملک کی معاشی ترقی میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ سابق وزیر ریلوے ممتابنرجی ہوں یا نتیش کمار اور لالو پرساد یادو ہر ایک نے ریلوے کے اہم شعبوں پر توجہ دی گئی مگر اس پر دیانتدار کام نہیں ہوا۔ لالو پرساد یادو کے دور میں ریلوے کو زبردست منافع ہوا تھا۔ بعد کے دنوں میں اس پر خسارہ کے بادل چھا گئے۔ ساوتھ سنٹرل ریلوے کے حق میں اس مرتبہ زیادہ ہمدردیاں کرنے کی دیگر گوشوں نے شکایت کی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو ساوتھ سنٹرل ریلوے کو ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی خاص پراجکٹس حاصل نہیں ہوئے۔ نئی ٹرینوں خاص کر ڈبل ڈیکرس چلانے کا فیصلہ قابل ستاشء ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افسوسناک پہلو یہ بھی ہیکہ ساوتھ سنٹرل ریلوے میں چلائی جانے والی تمام ٹرینوں کے اوقات کار اور تاخیر سے چلنے والی ٹرینوں کو درست کرنے پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا۔ سوپر فاسٹ ایکسپریس ٹرینیں بھی ایک گھنٹہ تاخیر سے پہنچتی ہیں۔ سابق وزیر ریلوے ممتابنرجی نے ساوتھ سنٹرل ریلوے کے تحت کاچیگوڑہ، رائچور پاسنجر ٹرین چلانے کا اعلان کیا تھا اب تک یہ ٹرین ریلوے بھون کے کاغذ کی زینت بنی ہوئی ہے۔ موجودہ حیدرآباد ، گلبرگہ انٹرسٹی ٹرین ناکافی سمجھی جارہی ہے۔ قاضی پیٹ، ورنگل، نظام آباد، محبوب نگر یہ ایسے تلنگانہ اضلاع ہیں جہاں ریلوے مسافروں کو بری طرح نظرانداز کیا جاتا ہے۔ صرف طویل مسافت کی ٹرینیں جو آندھراپردیش بالخصوص حیدرآباد و سکندرآباد سے گذرتی ہیں ان سے بھی مقامی مسافر استفادہ کرتے ہیں۔ مقامی افراد کیلئے الگ ٹرینیں نہیں ہے۔
حیدرآباد واڑی جنکشن روٹ پر بھی مسافروں کا اژدھام بڑھ رہا اس کے باوجود صبح کے وقت صرف فلک نما، گلبرگہ، شولاپور پاسنجر چلائی جاتی ہے جو مسافروں سے کھچاکھچ بھری رہتی ہے۔ یہ ٹرین کسی پسماندہ ملک کی سواری معلوم ہوتی ہے جہاں مسافروں کو چھتوں، کھڑکیوں اور دروازوں پر لٹک کر جاتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ ہندوستان کی ترقی اور ریلوے کی حالت زار پر افسوس ہوتا ہے۔ وزیر ریلوے ملکارجن کھرگے کو اپنے آبائی وطن گلبرگہ کیلئے بہت کچھ کرنا تھا۔ ان سے توقع کی جاتی تھی کہ حیدرآباد کرناٹک کیلئے معلنہ پراجکٹس کے علاوہ نئے پراجکٹس کے اعلان کے ساتھ کاموں کی عاجلانہ تکمیل پر دھیان دیتے۔ مالیاتی طور پر ریلوے بجٹ کو انہوں نے اپنے آنے والے نئے وزیر ریلوے کیلئے کیا چھوڑا ہے کیا نہیں یہ تو نیا وزیر ریلوے ہی بتا سکے گا۔ ریلوے خدمات میں غیرمعیاری پن بڑھتا جارہا ہے۔ گذشتہ 10 سال کے دوران منموہن سنگھ حکومت نے اس ملک کے ساتھ کیا کیا ہے یہ دیکھنے کیلئے صرف ریلوے کی خدمات اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ملک کی معیشت جگہ جگہ پٹریوں سے اتر چکی ہے اس کے باوجود یو پی اے حکومت خود کو کامیاب پارسا سمجھتی ہے۔