افغانستان کے جلال آباد سے دہلی کے پالیکابازار تک،چیس بورڈ کے ساتھ
نئی دہلی: افغانستان کے جلال آبا دسے دہلی کا قلب سمجھے جانے والے پالیکا بازار تک 58سالہ عبد الصمد نے لمبا سفر طئے کیا۔لیکن ان کے ا س سفر میں کوئی زاد راہ نہیں تھا صرف ان کے ساتھ ان کا چیس بورڈ تھا۔عبد الصمد روزانہ صبح گیارہ بجے انڈر گراؤنڈ مارکٹ میں اپنے ساتھ تین چیس بورڈ لے کر آتے ہیں اور انہیں ٹیبل پر جما دیتے ہیں۔
او ر لوگوں سے ساتھ چیس کھیلتے ہیں او رتینو ں بورڈوں پرقبضہ جما لیتے ہیں ۔عبد الصمد یہاں رات نو بجے تک رہتے ہیں ۔صمد 2014میں افغانستان سے دہلی آئے ۔اور دہلی کے کئی علاقوں میں چیس کھیلتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ان علاقوں میں ملویا نگر، سنٹرل پارک ، او رپالیکا بازار کے نام قابل ذکر ہیں ۔ہر کوئی ان کے ساتھ مفت میں یہ گیم کھیلنا چاہتاہے۔او ر جب کوئی ان سے رقم کی شرط پر کھیل کھیلنے کے لئے کہتا تو وہ منع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’ اس گیم کو صرف صاف من سے کھیلنا چاہئے۔‘‘ کناٹ پیلس میں چہارشنبہ کے روز دو پہر میں صمد ہر ایک سے یہ کھیل کھیلتے ہیں ۔اور پچاس سے زائد لوگ انہیں ہرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ ہر بار نا کام رہتے ہیں ۔طلبہ بھی اپنے کلاسس سے فارغ ہونے کے بعد ان کے ساتھ گیم کھیلتے ہیں ۔
اسی طرح دوسرے لوگ بھی یہاں جمع ہوجاتے ہیں۔امیت بھردواج جو ایک ایڈورٹائزمنٹ ایڈوائزر ہے۔ وہ یہا ں ہفتہ میں دو مرتبہ آتے ہیں ۔انہوں نے بتا یا کہ ’’ انہیں بہت مزہ آتاہے صمدکے ساتھ کھیلنے میں ۔ گھنٹوں بیت جاتے ہیں لیکن پتہ ہی نہیں چلتا۔‘‘
صمد پالیکا بازار میں ’’ چیس انکل ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں ۔اور سنٹرل پارک میں ایک درخت کے نیچے پچھلے دوسال سے یہ گیم کھیلتے ہیں ۔عبدالصمد کوبالی ووڈ کے نغمے بہت پسند ہیں بالخصوص پرانے گانے بہت پسند ہیں ۔جن میں ’’بہارو پھول برساؤ ‘‘ اور مغل اعظم فلم کا ’’ جب پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘پسند ہے۔
انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ 1985ء سے 1988ء تین سال افغانستان کی جیل میں گذارے۔جہاں وہ جیلر کے ساتھ چیس کھیلا کر تے تھے۔پھر وہاں سے وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پاکستان چلے گئے اور پھر 2014ء میں ہندوستان آئے ۔صمد نے کہا کہ ان کے ایک کالج کے دوست نے انہیں یہ کھیل سکھایا ہے ۔اور آج کئی لوگ ان سے یہ گیم سیکھتے ہیں۔کنال جو ایک آرکیٹیکچر کا طالبعلم ہے اور منیش جو اکسپورٹ ہاؤس میں کام کرتا ہے ۔
ان کی دوستی اسی کھیل کر دوران ہوئی ۔اور وہ دونوں ہفتہ میں تین مرتبہ اسی جگہ ملتے ہیں ۔انہوں نے عبد الصمد کے تعلق سے کہا کہ’’انکل کو ہرانا بہت مشکل ہے۔ہم تو صرف سیکھنے آتے ہیں۔‘‘عبد الصمد اپنے اہل خانہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے لڑکے ابھی بھی افغانستان میں ہی ہیں۔
جبکہ ان کی بیٹی ’او ربہن اور انکی ماں امریکہ میں مقیم ہیں۔انہوں نے ان سب سے جلد ملنے کی امید ظاہر کی۔انہوں نے کہا کہ وہ کینیڈین ویزہ کیلئے درخواست دے چکے ہیں۔افغانستان کے جلال آباد کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ان کے شہر میں داعش،طالبان ،مجاہدین جیسے دہشت گرد ہمارے شہر میں گھس گئے ہیں ۔