پروفیسرسید عطاء اللہ حسینی قادری الملتانی
جسم و جان اور بندگانِ خدا کے حقوق ادا نہ کرنا، سیاسی، سماجی، معاشرتی، اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی حقوق کو نظرانداز کردینا اور صرف عبادت بلاواسطہ میں لگے رہنا رہبانیت ہے، جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ کیونکہ بلاواسطہ عبادت تو کائنات کی ہر شے کر رہی ہے، فرشتے بھی عبادت کر رہے ہیں، پھر انسان میں اور دیگر مخلوقات میں فرق کیا ہوا؟۔ شاعر نے خوب کہا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یہ درد دل ہی تو بکھیڑا ہے، جسم و جان اور دیگر مخلوق کے حقوق کی ادائی کا، اسی کے لئے تو انسان کو پیدا کیا گیا ہے، تاکہ اس بکھیڑے میں اُلجھاکر اس کو آزمایا جائے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’(خدا وہ ہے) جس نے موت و حیات کی تخلیق کی ہے، تاکہ تم کو آزماکر دیکھے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘ (سورۃ الملک۔۲) یعنی انسان کے مرنے اور جینے کا سلسلہ اس نے اسی لئے شروع کیا ہے کہ دیکھے تم میں سے کون اچھا عمل کرنے والا ہے۔ اگر موت و حیات کا یہ سلسلہ نہ ہوتا، درد دل کا بکھیڑا نہ ہوتا اور انسان سے بھی ویسی ہی بلاواسطہ عبادت مطلوب ہوتی، جیسی کہ کروبیاں یعنی فرشتے کر رہے ہیں، تو پھر انسان کی خصوصیت کیا ہوتی اور خلافتِ ارضی سے اس کو کیوں نوازا جاتا۔ دنیا کے اس بکھیڑے کو چھوڑکر صرف بلاواسطہ عبادت میں لگے رہنا رہبانیت ہے۔
بخاری و مسلم کی ایک روایت ہے کہ ایک صحابی نے کہا: ’’میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا‘‘۔ دوسرے نے کہا: ’’میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہ کروں گا‘‘۔ تیسرے نے کہا: ’’میں کبھی شادی نہ کروں گا اور عورت سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کی باتیں سنیں تو فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس سے تقویٰ کرتا ہوں، مگر میرا طریقہ یہ ہے کہ میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا، راتوں کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جو میرے اس طریقے سے روگردانی کرے، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ ایک اور حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے اوپر سختی نہ کرو کہ اللہ تم پر سختی کرے۔ ایک گروہ نے یہی شدت اختیار کی تو اللہ نے بھی اسے سخت پکڑا۔ دیکھ لو! ان کے بقیۃ السلف راہب خانوں اور کنیسوں میں موجود ہیں‘‘۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے ناآشنا تھا، لیکن ابتداء سے مسیحیت میں اس کا رجحان موجود تھا۔ ترک و تجرید کو شادی بیاہ اور دُنیوی کاروبار کے مقابلے میں اعلیٰ اور فاضل سمجھا جاتا تھا، خاص طورپر تجرد کو تقدس حاصل تھا، ان ہی تخیلات نے تیسری صدی تک پہنچتے پہنچتے ایک فتنہ کی شکل اختیار کرلی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحیت میں پھیلنی شروع ہو گئی۔ مسیحیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اگلے اَدوار میں ان میں متعدد علماء ایسے پیدا ہوتے رہے، جو رہبانیت کی دیوار پر ردّے پر ردّا رکھتے گئے۔
ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ مسیحیت کا یہ تصور ترک دنیا، اسلام کے تصور ترک دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ ترک دنیا کے لفظ سے دھوکہ نہ کھائیے، مسیحیت میں ترک دنیا کا تصور یہ ہے کہ دنیاوی علائق سے منہ موڑکر انسان جنگلوں اور غاروں میں جابسے، دنیاوی علائق سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ سینٹ جیروم کہتا ہے: ’’اگر تیرا بھتیجا تیرے گلے میں بانہیں ڈال کر تجھ سے لپٹ جائے، اگرچہ تیری ماں اپنے دودھ کا واسطہ دے کر تجھے روکے، اگرچہ تیرا باپ تجھے روکنے کے لئے تیرے آگے لیٹ جائے، پھر بھی تو سب کو چھوڑکر اور باپ کے جسم کو روندکر ایک آنسو بہائے بغیر صلیب کے جھنڈے کی طرف دَوڑجا۔ اس معاملے میں بے رحمی ہی تقویٰ ہے‘‘۔ یہ ہے مسیحیت میں ترک دنیا کا تصور۔ ذرا غور کیجئے! کیا اسلام میں ایسے کسی تصور کی گنجائش ہے؟ اسلام جس ترک دنیا کی بات کرتا ہے، اس سے مراد وہ دنیا ہے جو بندے کو خدا سے غافل کردیتی ہے۔ میری اس بات کے ثبوت کے لئے ایک مسلم الثبوت صوفی، مقتدائے اہل دل، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی گواہی ایک معتبر گواہی ہے، وہ اسلام کے تصور ترک دنیا کی حقیقت کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’ترک دنیا کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان اپنا لباس اُتاردے یا لنگوٹہ باندھ لے (بلکہ) ترک دنیا کے معنی یہ ہیں کہ انسان لباس بھی پہنے، کھانا بھی کھائے، البتہ جو کماتا رہے خرچ کرتا رہے، جوڑ جوڑکر نہ رکھے اور دل کو کسی چیز میں اَٹکائے نہ رکھے، یہ ترک دنیا ہے‘‘۔
جو لوگ صوفیہ پر تنقید کرکے تصوف کو بھی مسیحی رہبانیت کا چربہ سمجھتے ہیں، وہ ایک لفظ ’’ترک دنیا‘‘ سے کتنا بڑا دھوکہ کھا گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھا راستہ دِکھائے۔ آمین۔ بہرحال رہبانیت کے بارے میں قرآن پاک کا بیان ہے کہ ’’رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کرلی ہے، ہم نے ان پر فرض نہیں کی تھی، مگر اللہ کی رضا کی طلب میں انھوں نے خود ہی یہ بدعت نکالی اور اس کی پابندی کا جو حق تھا، اسے ادا نہ کیا‘‘ (سورہ حدید۔۲۷) ’’اللہ کی رضا کی طلب‘‘ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: (۱) ایک یہ کہ ہم نے ان پر رہبانیت کو فرض نہیں کیا تھا، بلکہ جو چیز ان پر فرض تھی، وہ یہ تھی کہ وہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں (۲) اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ رہبانیت ہماری فرض کی ہوئی نہ تھی، بلکہ اللہ کی رضا کی طلب میں انھوں نے از خود اپنے اوپر فرض کرلیا تھا۔
مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں آیت اس بات کی صراحت کرتی ہے کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے، اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے‘‘۔ اسلام کے تصور عبادت سے یہ ہرگز ہرگز میل نہیں کھاتی۔ اسلام کے تصور عبادت کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو بلاواسطہ بھی عبادت کرنی ہے اور بالواسطہ بھی، یعنی دنیا کے سارے کام حکم خدا کے مطابق بجالانا، یہ عبادت کا ایک ہمہ گیر تصور ہے۔ یہ عبادت اللہ تعالیٰ کا تیسرا حق ہے، جسے ادا کرنا انسان کا فرض ہے اور انسان سے اسی عبادت کاملہ کا مطالبہ ہے، ہمہ وقتی نہ کہ جزوقتی۔ لہذا ایک مسلمان کو چاہئے کہ اللہ کی بندگی میں لگا رہے، اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہے، کیونکہ عبادت بندے کی زینت ہے، عبادت سے بندے کی عزت ہے، عبادت دل کا سکون ہے، عبادت آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، یہ تمھیں دنیا کے ہر غم سے نجات دے دی گی اور ہر پریشانی سے دُور کردے گی۔ (اقتباس)