عام بجٹ

اعداد کی جادوگری سے کب بہلتا ہے یہ دِل
سائنسی ہے دور یہ اوہام اب بیکار ہیں
عام بجٹ
وزیر فینانس ارون جیٹلی نے اپنا تیسرا عام بجٹ پیش کیا ہے۔ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے کئی معاملوں میں ملک کی معیشت کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی ہے، اس کا نتیجہ ہے کہ آج معاشی سطح پر مہنگائی اور افراط زر پر قابو پانے والے اقدامات بھی ضائع ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر بی جے پی کو اس ملک میں اپنی تباہی کی فکر نہیں ہے تو آگے چل کر وہ حکمت سے نہیں بلکہ اپنی حماقت کی وجہ سے تباہ ہوجائے گی ۔ ’’ایک نریندر مودی ، سب پر بھاری‘‘ یا ’’ہر ہر مودی، گھر گھر مودی‘‘ کا نعرہ آج کے وزیر فینانس کی جانب سے پیش کردہ بجٹ نے دکھا دیا ہے کہ یہ ملک صرف نعروں سے نہیں چل سکتا۔ اس کے لئے مضبوط حکمت عملی اور معاشی اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیر فینانس کی حیثیت سے ارون جیٹلی نے یہ تو دعویٰ کیا کہ عالمی کساد بازاری کے باوجود ہندوستان کی معیشت مضبوط اور مستحکم ہے لیکن انہی کی حکومت نے گزشتہ سال ملک کی جی ڈی پی شرح 8.5% ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس سال جی ڈی پی کی شرح پیداوار 7.6% ہونے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے اور یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ افراط زر 5.4% تک گھٹ گیا ہے۔ ملک کی معاشی ترقی کا اصل دارومدار زرعی شعبہ اور صنعتی ادارے ہیں، اس کے لئے ارون جیٹلی نے اپنے بجٹ میں کچھ اعلانات کئے ہیں۔ ان کے بجٹ کے 9 ستونوں میں سے زراعت اور کسانوں کو اہم ستون مانا گیا ہے۔ بلاشبہ زرعی شعبہ کی ترقی کے علاوہ دیہی شعبہ میں بہبودی اقدامات، عوام کی صحت، تعلیم، مہارت اور روزگار پیدا کرنے والے اقدامات، انفراسٹرکچر، فینانشیل سیکٹر میں اصلاحات لائے جائیں تو ملک کی ترقی کے لئے جو نشانہ مقرر کیا گیا ہے۔ اس کو حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان کے بجٹ اعلانات میں دیہی علاقوں کو فصل کئے جانے والے فنڈس کی رقم کو دوگنا کرتا ہے۔ دیہی روزگار اسکیم کے لئے انہوں نے 38,500 کروڑ روپئے کا اعلان کیا۔ یہ اسکیم دراصل سابق یو پی اے حکومت کی شروع کردہ ہے جس کے بہتر نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ اس بجٹ میں ایک اہم اعلان غریب خواتین کو پکوان گیاس کنکشن ہے۔ اس سے جاریہ سال 1.5 کروڑ گرہست خواتین کو فائدہ ہوگا۔ سرکاری ملازمین کسی بھی معیشت کی ترقی میں اہم ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں، ان کے لئے 7 ویں پے کمیشن کی سفارشات کے مطابق تنخواہیں ادا کرنے اور ایک عہدہ ایک تنخواہ اسکیم پر عمل آوری کا بوجھ سرکاری خزانہ پر پڑے گا۔ خانگی شعبہ کے ملازمین کے لئے ابتدائی تین سال کے لئے حکومت ای پی ایف میں 8.33% ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ شخصی انکم ٹیکس کی استثنائی حد کو جوں کا توں رکھا گیا جبکہ مہنگائی اور آمدنی کے تناسب کو دیکھتے ہوئے انکم ٹیکس کی حد کو اضافہ کرنے کی ضرورت تھی۔ اس بجٹ میں حکومت نے روزگار پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دینے کے بجائے خود روزگار اسکیموں کو ترجیح دی ہے، جبکہ ملک میں ہر سال لاکھوں بچے فارغ التحصیل ہوکر معاشی مارکٹ میں آتے ہیں۔ ان کے لئے اچھا روزگار ہی وقت کا تقاضہ ہے، لیکن حکومت نے خودروزگار کی ترغیب دے کر اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کی ہے۔ بجٹ میں ان لوگوں کو جن کی آمدنی 6 سالانہ 5 لاکھ روپئے سے کم ہے، انہیں 3 ہزار روپئے کی راحت دی جارہی ہے۔ ان تمام خانگی شعبہ کے ملازمین سے سالانہ 3 ہزار روپئے سے زائد رقم منہا کرلی جائے گی۔ صحت عامہ کے شعبہ کے لئے حکومت نے بعض رعایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ رعایت ڈائیلاس پر رہنے والے مریضوں کے لئے خاص کر دی گئی ہے۔ عام بجٹ کا اثر ملک کی شیئر مارکٹ پر بھی پڑتا ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت اس وقت ’’چین ‘‘ کو مانا جارہا تھا لیکن اس کی بھی گرتی ہوئی معیشت نے ہندوستان کو ایک اچھا موقع دیا ہے کہ وہ اپنی معاشی ترقی کی رفتار کو برقرار رکھے مگر وزیر فینانس ارون جیٹلی نے عالمی معاشی کساد بازار ی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے بجٹ کو بہترین قرار دیا ہے۔ اس طرح ان کی ٹیکس تجاویز پر ہی شیئر مارکٹ میں 600 اشاریہ کی گراوٹ آگئی اور نیفٹی میں 200 پوائنٹس گرگئے۔ ہمیشہ کی طرح حکومت نے کاروں، سگریٹ ،تمباکو اشیاء کو مہنگا کردیا ہے۔ اصل مہنگائی اجناس اور روزمرہ استعمال میں آنے والی ضروری اشیاء کی قیمتوں پر قابو پانے کی ضرورت تھی، اس کیلئے وزیر فینانس کا بجٹ ’’خاموش‘‘ ہے۔ صرف توقعات اور امکانات کے سہارے ملک کے غریب عوام کو دلاسہ دیا جاتا رہا ہے۔ عالمی مارکٹ میں سست رفتاری کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ہندوستانی معیشت کو مستحکم کرنے کی فکر لاحق تھی ۔ ارون جیٹلی نے اس فکر کے ساتھ بجٹ تیار کیا ہے تو اس سے قوی توقع پیدا ہوتی ہے کہ آنے والے سال تک حکومت کے اقدامات عوام کیلئے باعث راحت ہوں۔