عام آدمی کی مقبولیت برقرار

عام آدمی پارٹی کے صدر اروند کجریوال دہلی کے عوام کے لئے پسندیدہ چیف منسٹر ہیں اس مرتبہ اسمبلی انتخابات میں بھی ان کی مقبولیت کا کامیاب اثر دیکھا جا رہا ہے ۔ قومی سطح کی حکمراں پارٹی بی جے پی کو سارے ملک کے بعد اب دہلی میں گھٹنے ٹیکنے کی نوبت آ رہی ہے ۔ اس کی وجہ وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی اور بی جے پی یا سنگھ پریوار کے اندر ان کے درپردہ کارروائیاں کرنے والے دشمنوں کی نفرت انگیز تقاریر و بیانات ہیں ۔ دہلی میں بی جے پی کو مشورہ دینے والوں نے بھی پارٹی کے حق میں بدنامی پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ اخبارات میں شائع کردہ انتخابی اشتہارات میں انا ہزارے اور اروند کجریوال کے کارٹونس کی اشاعت ہائی وی انٹرویو میں بی جے پی چیف منسٹر امیدوارہ کرن بیدی کے بیانات سے دہلی عوام کے سامنے یہ از خود آشکار ہو رہے ہیں تو اس سے عام آدمی پارٹی کا موقف مضبوط ہو رہا ہے ۔ بی جے پی نے اروند کجریوال کے خلاف ذات پات کا متنازعہ ریمارک کیا تھا جس کے بعد ’’بنیا‘‘ برادری میں ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ دہلی کی اسمبلی قومی سطح پر کامیابی کا ریکارڈ قائم کرنے کرنے والی بی جے پی کے لئے گلے کی ہڈی بن رہی ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی قوت بننے والی تنظیم آر ایس ایس نے بھی دہلی میں آ کر خود کو بے بس محسوس کیا ہے ۔ اس نے دبے ہونٹ یہ اعتراف کرلیا ہے کہ دہلی کے عوام کو بے وقوف بنانا آسان نہیں ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے ساتھ سخت ترین مقابلہ سے بی جے پی کو یہ اندازہ ہوجانا چاہئے کہ فی الحال دہلی کی انتخابی میدان اس کیلئے آرام دہ نہیں ہے ۔ بی جے پی کی سب سے فاش غلطی سابق آئی پی ایس آفیسر کرن بیدی کو دہلی کے چیف منسٹر کی حیثیت امیدوار بنانا ہے ۔

پارٹی کے کیڈرس کو ناراض کرکے بی جے پی کی قیادت نے ریاستی یونٹ کو مایوس کر دیاہے ۔ انتخابی مہم اور عوام کے ردعمل سے واضح ہو رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ دہلی کے بڑے حصہ پر اروند کجریوال کا اثر اس بات کا ثبوت ہے کہ عام آدمی کو مودی یا بی جے پی یا آر ایس ایس کی گمراہ کن پالیسیوں کی خبر ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے سلم علاقوں ‘ بازآباد کاری کالونیوں اور کم آمدنی والے متوسط طبقہ میں اپنا مقام بنالیا ہے تو اسمبلی انتخابات کے نتائج اروند کجریوال کو چیف منسٹر کی کرسی تک لے جاسکتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف گروپ بندی میں مصروف بی جے پی کے داخلی انتشار پسند عناصر بھی عام آدمی پارٹی کی کامیابی کی راہ کو آسان بنائیں گے۔ گذشتہ سال انتخابات کے بعد سے پہلی مرتبہ مودی کی بی جے پی میں بعض ارکان پارلیمنٹ بھی مودی کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں خاص کر معاشی پالیسیوں سے روگردانی کرتے ہوئے نفرت پر مبنی تقاریر اور ہندوزم کو فروغ دینے کے بہانے ملک کی اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ان کی حرکتوں پر وزیراعظم کی خاموشی نے بھی ان شرپسند عناصر کے حوصلے بلند کر دئیے ہیں ۔

آئندہ یہی لوگ بی جے پی کے زوال اور وزیراعظم مودی کی ناکامیوں کا سبب بن جائیں گے ۔ سخت گیر ہندو سیاستداں اس وقت مودی کے ساتھ خود کو غیر مطمئن محسوس کر رہے ہیں اس لئے انہوں نے اپنی شناخت بنانے کے لئے خود کے ایجنڈہ کو روبہ عمل لانا شروع کیاہے ‘ ان کا ایجنڈہ نفرت پر مبنی تقاریر اور ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو کشیدہ بنانا ہے ۔ وزیراعظم مودی کے پاس پالیسیاں دینے اور پالیسوں کا اعلان کرنے کااگزیکیٹیو آرڈر ہونے کے باوجود ان پالیسیوں پر عمل آوری کے لئے جن اصلاحات کے عمل پر دھیان دینی ہے اس کو نظرانداز کر دینے کا مطلب مودی کو آگے چل کر اپنی ہی پارٹی کے انتہاپسند عناصر کے پیدا کردہ مسائل و چیالنجس کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت اور اس سے پہلے اڈوانی کی رتھ یاترا کے ذریعہ بی جے پی کو مضبوط بنانے والے عوامل کا احیاء کرنا بی جے پی کے لئے اپنی قبر خود کھودنے کے مترادف ہوگا ۔ ماضی کے مقابل موجودہ ہندوستان کا رائے ہندہ باشعور ہوچکا ہے ۔ گذشتہ لوک سبھا میں بی جے پی کی کامیابی کی اصل وجہ ترقی کا نعرہ تھا لیکن 8 ماہ کے دوران اس ترقی کے نعرے کی جگہ نفرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی ‘ لفظ سیکولرزام کو دستور کے دیپاچہ سے حذف کرنے اور دیگر تنازعات نے لیا ہے ۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی کے ساتھ ہی ملک بھر میں سیکولر عوام کی قوت ارادی میں بھی بہتری پیدا ہوجائیگی ۔