عام انتخابات

الیکشن کمیشن نے ملک میں عام انتخابات کے ساتھ ریاستی اسمبلی کیلئے پولنگ کی تاریخ کا اعلان کیا ہے۔ آندھراپردیش میں دو مرحلوں میں یعنی 30 اپریل اور 7 مئی کو رائے دہی ہوگی۔ ملک کی تمام ریاستوں میں 9 مرحلوں میں پولنگ ہوگی جو 7 اپریل سے شروع ہوکر 12 مئی کو ختم ہوگی۔ 16 مئی کو ووٹوں کی گنتی کے ساتھ ہی ملک کو ایک نئی حکومت ملے گی ۔اس مرتبہ لوک سبھا انتخابات اور ریاست آندھراپردیش اور نئی ریاست تلنگانہ کیلئے بھی رائے دہی کو اہمیت حاصل ہوگی ۔ بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی اور کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے درمیان راست مقابلہ ہونے کا امکان ہے۔ ملک میں نئی عام آدمی پارٹی کی لہر نے بھی رائے دہی کی سمت کو دو رخی کے بجائے کہیں 3 رخی کہیں 4 رخی میں موڑ دیا ہے ۔

چیف الیکشن کمشنر وی ایس سمپت نے اپنے ساتھی کمشنران ایچ ایس برہما اور ایس این اے زیدی کے ہمراہ انتخابی نظام الاوقات کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کو رائے دہندوں تک پہونچنے کیلئے پارٹی منشور کو پرکشش بنانے مقبول عام اسکیمات سے عوام کی دلجوئی کرنے کی ناپسندیدہ دوڑ شروع کرتے دیکھا جائے گا ۔ اس مرتبہ عام انتخابات اور ریاستی اسمبلی ، ضمنی انتخابات کو خاص اہمیت دی جارہی ہے ، اس لئے یہ مقابلہ راست فرقہ پرستوں بمقابلہ سیکولر پارٹیوں کے درمیان ہوگا ۔ عام آدمی پارٹی نے لوک سبھا کی 100 نشستیں حاصل کرنے کا نشانہ بنایا ہے ۔ ملک کے بالغ اور باشعور 81.4 کروڑ روائے دہندوں کو اپنے لیڈر کا انتخاب کرنے میں دانشوران عمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ ملک کے 9.3 لاکھ پولنگ اسٹیشنوں میں سے کئی پولنگ اسٹیشن حساس نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ یہاں پر سیکوریٹی کی ذمہ داری پوری چوکسی کے ساتھ نبھانی ہوگئی ۔ الیکشن کمیشن نے تقریباً 1.15 لاکھ سنٹرل پیراملٹری عملہ کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ انتخابات سیکولر رائے دہندوں اور فرقہ پرست سوچ کی حامل قیادت کے درمیان ایک سخت آزمائش ہوں گے کیونکہ بی جے پی نے اس مرتبہ اقتدار کے حصول کیلئے ہر طرح کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مسلمانوں کو رجھانے کیلئے بی جے پی قیادت نے گجرات کے 2002 ء فسادات پر معذرت خواہی کی بھی پیشکش کی تھی ۔

گزشتہ 12 سال کے دوران گجرات میں کوئی بھی فساد نہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے چیف منسٹر نریندر مودی نے ملک کی دیگر ریاستوں خاص کر سیکولر پارٹی کی حکمرانی والی ریاست اترپردیش میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی طویل فہرست پیش کی ہے ۔ سماج وادی پارٹی کی حکمرانی میں فرقہ پرست فسادات ہونے کا اعلان کرنے والے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی اپنی کامیابی کیلئے تاجر گھرانوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک میں گیاس کی قیمتوں اور مکیش امبانی کے ساتھ کانگریس و نریندر مودی کے روابط کا سوال اٹھاتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے لیڈر سابق چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے ملک کے رائے دہندوں کے ذہنوں میں ایک بات ڈال دی ہے کہ اس ملک پر حکومت کرنے والی طاقتیں کانگریس یا بی جے پی نہیں ہیں بلکہ امبانی گھرانہ ہے ۔ اگر رائے دہندوں نے دو قومی پارٹیوں میں سے کسی ایک کو ووٹ دے کر انہیں دوبارہ اقتدار پر پہونچایا تو پھر ملک میں گیاس اور پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ضروری اشیاء کی قیمتیں بھی آسماں کو پہونچ جائیں گی کیونکہ گیاس اور پٹرول کی قیمتوں کا راست تعلق عام اشیاء کی قیمتوں سے ہوتا ہے ۔ شرح بار برداری میں اضافہ کا اثر مارکٹ پر پڑے گا۔ لہذا رائے دہندوں کو ہوش سے کام لے کر ایسی پارٹیوں کو موقع دینا چاہئے جو خالص عوام کی خدمت عام آدمی کی بہبود کی فکر کے ساتھ میدان میں آرہی ہیں۔

نئی ریاست تلنگانہ میں یہ عام انتخابات آزمائش کی کڑی ثابت ہوں گے کیونکہ تلنگانہ کے قیام سے قبل ٹی آر ایس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کانگریس میں ضم ہوجائے گی۔ اب کانگریس ہائی کمان نے تلنگانہ کے قیام کو یقینی بنایا تو ٹی آر ایس کو ضم کرنے سے اس کے سربراہ چندر شیکھر راؤ کے انکار کے بعد ریاستی کانگریس قائدین کو جارحانہ انتخابی مہم چلاتے ہوئے ٹی آر ایس کی وعدہ خلافی کو عوام الناس کے سامنے آشکار کرنے کا موقع ملے گا ۔ ٹی آر ایس کو چونکہ تلنگانہ تحریک میں کامیابی کا کریڈٹ ملنے والا ہے تو تلنگانہ کے رائے دہندے اس پارٹی کو ترجیحی بنیاد پر ووٹ دینے کا فیصلہ کرسکتے ہیں ۔ تلنگانہ میں تلگو دیشم کا بھی اثر ہے ، اس کے نمائندے بھی اپنے حصہ کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ جہاں تک منقسم ریاست سیما آندھرا کا تعلق ہے وہاں پر کانگریس کا صفایا یقینی بتایا جارہا ہے۔ وائی ایس آر کانگریس یا تلگو دیشم کو عوامی تائید حاصل ہوگی ۔ عام انتخابات سے قبل معروض عوامی مباحثوں کے متعدد پہلو دلچسپ اور توجہ طلب ہوں گے کیونکہ عوامی مباحث ہی انتخابات پر اثر انداز ہوں گے ۔ ملک کے دانشورانہ ماحول کو ایک نئی جہت سے سرفراز کرنے کیلئے عوام کی رائے ہی مقدم ہوگی۔