عام انتخابات سے قبل 100 کروڑ کی نئی صنعت ؟

سیاسی پارٹیاں اور امیدواروں کی جانب سے سروے و تجزیہ
حیدرآباد ۔ 13 ۔ جولائی : ( سیاست نیوز ) : تلنگانہ میں انتخابی تیاریاں عروج پر پہونچ گئی ہیں ۔ آئندہ تین ماہ یا 6 ماہ میں انتخابات منعقد ہو اس کی پرواہ کئے بغیر ارکان اسمبلی سابق ارکان اسمبلی اور ٹکٹ کے دعویدار قائدین عوامی نبض کو جاننے اور پہچاننے کے لیے ابھی سے اپنا اپنا سروے کرارہے ہیں ۔ سامپل سروے پر جہاں 50 ہزار روپئے خرچ کیا جارہا ہے ۔ وہیں جنرل سروے پر 6 تا 10 لاکھ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں ساتھ ہی زیادہ سے زیادہ سوشیل میڈیا مینجمنٹ پر توجہ دی جارہی ہے ۔ انتخابات تک سروے کرانے کا بزنس 100 کروڑ تک پہونچ جانے کا امکان ہے ۔ عام طور پر حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنی طاقت ، عوامی نبض ، حکومت کی فلاحی اسکیمات کے علاوہ دوسرے امور پر سروے کراتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے اور عوامی سونچ کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اس مرتبہ آئندہ انتخابات کے لیے حالت پوری طرح تبدیل ہوگئے ہیں ۔ امیدوار خود اپنے ذاتی مصارف سے سروے کراتے ہوئے اپنے آپ کو عوام سے قریب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ریاست میں انتخابی مہم کی تیاریوں کا آغاز ہوگیا ہے ۔ انتخابی سروے بھی اس کا ایک حصہ ہے ۔ چند ارکان اسمبلی اپنے اپنے اسمبلی حلقوں میں فلاحی اسکیمات کی عمل آوری کے لیے سرکاری مشنری کو متحرک کرچکے ہیں ۔ ہر قائد پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے کمربستہ ہوچکا ہے ۔ سروے رپورٹ میں اپنی کمزوریوں کی نشاندہی کے بعد ان علاقوں میں عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے پھر سے نئے وعدے کئے جارہے ہیں ۔ اس مرتبہ انتخابی میدان میں سوشیل میڈیا ہر پارٹی و امیدوار کے لیے بہت بڑا انتخابی ہتھیار ثابت ہونے والا ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اور مقابلہ کرنے والے امیدواروں کو اس کا اندازہ ہوگیا ہے ۔ ہر کوئی سوشیل میڈیا کو پولیٹکل گیم کا بہت بڑا سیاسی میدان تصور کرتے ہوئے کام کررہے ہیں ۔ قائدین کی سوشیل میڈیا پر کی جانے والی پوسٹ کو حاصل ہوئے لائیک اور کی جانے والی شیئرس کو کامیابی کا ضامن سمجھا جارہا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر زیادہ فنڈز خرچ کئے جارہے ہیں ۔ ہر قائد اپنے لیے علحدہ علحدہ سوشیل میڈیا کی ٹیمس تشکیل دیتے ہوئے ان کے ذریعہ اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہونچانے کی کوشش کررہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشیل میڈیا پر ہر ماہ 50 ہزار تا 5 لاکھ روپئے خرچ کیا جارہا ہے ۔ اپنے اپنے دفاتر میں علحدہ شعبوں کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ ہر قائد سوشیل میڈیا کے ماہرین سے رابطہ بنایا ہوا ہے ۔ فیس بک ، ٹیوٹر اور واٹس ایپ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ مختلف گروپس تیار کئے جارہے ہیں اس کے علاوہ ان گروپس کے ذریعہ بوگس پبلسٹی کرتے ہوئے مخالفین پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور عوام کی انہیں زیادہ سے زیادہ تائید حاصل ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے عوام کی ذہن سازی کرنے میں قائدین مصروف ہیں ۔ ہر قائد کے لیے چند افراد سروے کررہے ہیں ۔ چند افراد انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ اس طرح سوشیل میڈیا کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ایس ایم ایس ، وائس ریکارڈنگ بھیج رہے ہیں ۔ چند قائدین سوشیل میڈیا میں تشہیر کے لیے پیاکیج بھی دے رہے ہیں ۔ قائدین کی سوشیل میڈیا میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کو دیکھ کر چند ادارے اپنی کامیاب رپورٹس کے ساتھ ارکان اسمبلی ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ دوسرے قائدین سے رجوع ہورہے ہیں ۔ موجودہ ارکان اسمبلی میں اس مرتبہ زیادہ ٹینشن دیکھا جارہا ہے ۔ ایک طرف پارٹیاں سروے کرا رہی ہیں ۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں اور حریف قائدین کے بھی سروے منظر عام پر آرہے ہیں ۔ انتخابی مہم میں ڈیجیٹل میڈیا بھی کلیدی رول ادا کررہا ہے ۔ ویڈیو کلپنگ بھی سوشیل میڈیا میں عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔۔