حیدرآباد ۔ 5 ۔ نومبر : ( ابوایمل ) : اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ’ صحت ‘ ہے ۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جس سے لاپرواہی انسانوں کو مصیبتوں میں مبتلا کردیتی ہے ۔ پولیو ایک ایسا مرض ہے جو انسان کو اپاہیج بنادیتا ہے اگر والدین استقامت کے ساتھ علاج نہ کرائیں تو بچے کو زندگی بھر بے کسی اور مجبوری کی زندگی گذارنا پڑتا ہے ۔ آج ہم ’ عام آدمی کی خاص بات ‘ میں ایک ایسے ہی عام آدمی کو پیش کررہے ہیں جو پولیو سے متاثر ہیں ۔ مگر قابل تعریف بات یہ ہے کہ معذور ہونے کے باوجود وہ مجبوری کی زندگی گذارنے کے بجائے محنت و مشقت اور جدوجہد کے ذریعہ اپنی زندگی گذارنے کا راستہ اختیار کیا ۔ ہم بات کررہے ہیں 28 سالہ محمد مظہر الدین کی جو چارمینار کے پہلو میں بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہاں آنے والے سیاحوں کوایک یادگار تحفہ لے جانے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں محمد مظہر الدین نے بتایا کہ جب ان کی عمر محض ایک سال کی تھی ان کا ایک پاؤں پولیو سے متاثر ہوگیا اور علاج کے باوجود خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکا ۔ تاہم شعور کی منزل میں قدم رکھنے کے بعد اپنی معذوری کو انہوں نے مجبوری تصور نہیں کیا اور مسلسل جدوجہد میں مصروف رہا اور آج بھی ہوں ۔ ایس ایس سی تک تعلیم حاصل کرنے والے مظہر نے کہا کہ موجودہ مصروفیت سے پہلے تقریبا 12 سال تک اسی مقام پر انہوں نے پانی کے پیکٹ فروخت کیا ہے ۔ تاہم پھر انہوں نے کچھ الگ ہٹ کر کوئی کام کرنے کا منصوبہ بنایا اور چاول کے دانے پر نام لکھنے کا ہنر حاصل کیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کے لیے کسی کی مدد حاصل نہیں کی اور اپنے طور پر اس فن میں مہارت حاصل کی اور آج وہ چارمینار کی جالی کے پاس بیٹھ کر چاول کے دانوں پر نام لکھنے کا کام کرتے ہیں ۔ بعد ازاں Key Chain میں ایک مخصوص قسم کا کیمیکل ڈال کر اس میں چاول کا دانہ ڈال دیتے ہیں جو برسوں محفوظ حالت میں رہتا ہے ۔
یہاں آنے والے سیاح بڑے ہی شوق اور تجسس کے ساتھ چاول کے دانہ پر اپنا نام لکھوا کر کی چین مظہر سے خریدتے ہیں جو کہ وہ محض 30 روپئے میں فروخت کرتے ہیں ۔ مظہر الدین نے ہمیں بتایا کہ وہ ایک منٹ میں چاول پر ایک نام تحریر کردیتے ہیں۔ جو خریداروں یعنی سیاحوں کی خواہش کے مطابق ان کا یا ان کے کسی دوست کا نام ہوتا ہے ۔ وہ اس کی چین کو ایک یادگار تحفہ کی شکل میں یہاں سے خرید کر لے جاتے ہیں ۔ شاہین نگر سے تعلق رکھنے والے مظہر الدین نے بتایا کہ وہ روزآنہ آر ٹی سی بس کے ذریعہ آتے جاتے ہیں ۔ میرے ایک سوال پر انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہم جیسے پڑھے لکھے معذوروں کو ملازمت فراہم کرنے کے اقدامات کرے تو ہزاروں معذورین کا بھلا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہیں اس فن کے ذریعہ ایک معقول آمدنی ہوجاتی ہے مگر آخر کب تک اس روڈ پر بیٹھ کر زندگی گذاری جاسکتی ہے ۔ شادی کے حوالے سے پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ تاحال انہوں نے شادی نہیں کی ہے ۔ تاہم جب ایسا ارادہ ہوگا تو وہ ایسی شریک حیات کو ترجیح دیں گے جو سیدھی سادی اور نمازی پرہیزگار ہو ۔ بہر حال ایسے چہروں کو ہمیشہ عوام کے سامنے پیش کرنے کا مقصد ان ہٹے کٹے نوجوانوں اور ان کے والدین کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ کاہلی اور آرام پسندی کا شکار ہونے کے بجائے مظہر جیسے نوجوانوں سے سبق حاصل کریں اور اپنی محنت اور جدوجہد کے ذریعہ اپنا اور اپنے والدین کے لیے معاشی خوشحالی کا ذریعہ بننے کی کوشش کریں ۔۔