عام آدمی کی خاص بات

عام آدمی کی خاص بات
گ12 گھنٹے کھڑے ہو کر محنت کرتا ہوں تاکہ
ہمارے بچے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجائیں
حیدرآباد ۔ 22 ۔ ستمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : جہاں چاہ وہاں راہ یا پھر کر محنت کھا نعمت والی مثال ہر اس بندے پر صادق آتی ہے جو سچے دل کے ساتھ سچی لگن ، کڑی محنت اور مناسب منصوبہ بندی کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کی پرخار راہوں پر گامزن رہتا ہے ۔ اور ایسا انسان جو حلال روزگار کے لیے جرات و استقلال کے ساتھ محنت و مشقت جاری رکھتا ہے اسے کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ آج ہم آپ کو ’ عام آدمی کی خاص بات ‘ کے ذریعہ ایک ایسے ہی شخص جس نے مختلف کاروبار میں نقصان اٹھانے کے باوجود اپنی ہمت نہیں ہاری اور کبھی کسی کاروبار کو چھوٹا بڑا تصور نہیں کیا ۔ جس کے نتیجے میں آج وہ ایک پرسکون زندگی گذار رہے ہیں ۔ 42 سالہ محمد معین جو چارمینار کے دامن میں بنڈی پر بچوں کے کھلونے سجا کر فروخت کرتے نظر آتے ہیں ۔ چھٹویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے والے معین پیشہ کے اعتبار سے الیکٹریشن ہیں اور وہ 8 سال تک دوحہ قطر میں ملازمت کرچکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ قطر سے واپسی کے بعد ان کے پاس ایک معقول رقم تھی جس کے ذریعہ انہوں نے اپنے وطن میں ہی کاروبار کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ ابتداً انہوں نے بھینسوں کی ڈوڈی قائم کی مگر کسی وجہ سے یہ کاروبار نہیں چل سکا ۔ اس کے بعد انہوں نے ’ چکی ‘ بنانے کا کام شروع کیا مگر اس میں بھی نقصان ، پھر انہوں نے دودھ دہی کی دکان ڈالی مگر اس میں بھی انہیں نقصان ہی ہوا ۔ جس کے بعد انہوں نے مزید چار چھوٹے چھوٹے کاروبار میں قسمت آزمائی کی مگر قسمت میں ناکامی تھی اور انہوں نے کہا میں ان کاروبار میں بھی ناکام رہا اور جو رقم تھی وہ بتدریج ختم ہوگئی ۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک بار پھر ہمت کر کے سکندرآباد میں بچوں کے کھلونے کی بنڈی لگائی جو بہت حد تک کامیاب رہی مگر یہاں پر بلدی عہدیدار اور پولیس عملہ سے انہیں کافی ہراسانی کا سامنا رہا ۔ آخر کار انہوں نے تنگ آکر اپنی بنڈی چارمینار کے دامن میں لگانا شروع کردیا اور الحمدﷲ یہاں کوئی پریشانی نہیں ہے اور پرسکون انداز میں کاروبار کررہے ہیں ۔ محمد معین نے بتایا کہ بیگم بازار سے وہ سارا سامان خرید کر لاتے ہیں اور صبح 10 تا رات 10 بجے تک یہیں روڈ پر کھڑے ہو کر کاروبار کرتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کی بنڈی پر جملہ 20 ہزار کا مال ہے ۔ جس سے انہیں یومیہ معقول آمدنی ہوجاتی ہے ۔ محمد معین نے بتایا کہ ان کی پیدائش ممبئی کی ہے تاہم انہوں نے یہیں پر شادی کی ہے اور انہیں 6 بچے ہیں ۔ وہ اپنے اس کاروبار سے مطمئن ہیں اور اسی آمدنی سے وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں ۔ محمد معین نے مزید کہا کہ صاحب میں روڈ پر دن رات ٹھہر کر اس لیے محنت و مشقت کرتا ہوں تاکہ ہمارے بچے اپنے پاؤں پر ٹھہر جائیں ۔ باریش چہرے والے محمد معین نے بتایا کہ وہ دعوت تبلیغ کا جب بھی موقع ملتا ہے اپنی یہ خدمات بھی انجام دیتے ہیں ۔ چارمینار کے پاس مسجدیں بھی قریب میں ہیں جس کی وجہ سے نماز ادا کرنے میں بھی سہولت ہوتی ہے ۔ بہر حال محمد معین کی کہانی جو ہمت و جرات اور استقلال پر مبنی ہے سننے کے بعد ذہن میں یہ خیال آیا کہ آدمی اگر ہمت اور استقلال کے ساتھ کوئی کام کرے تو اسے یقینا کامیابی ملتی ہے ۔ محمد معین نے مختلف کاروبار میں نقصان اٹھانے کے بعد بھی اپنی ہمت نہیں ہاری اور کسی کام کو انہوں نے کبھی چھوٹا نہیں سمجھا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے بقول قطر میں رہ کر وہ جتنا کما رہے تھے اس سے کہیں بہتر یہ کاروبار ہے جہاں وہ اپنی بیوی بچے کے ساتھ رہ کر کما رہے ہیں اور پر سکون زندگی گذار رہے ہیں ۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے ہمارے اکثر حیدرآبادی نوجوان یہ کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں کیا ہے ؟ کیا کریں ؟ اور کیسے روزگار حاصل کریں ؟ ان کے لیے محمد معین کی زندگی ایک بہتر مثال ہے کہ اگر دل میں جستجو اور کڑی محنت کا جذبہ ہو تو وہ حیدرآباد میں بھی رہ کر معقول رقم کما سکتے ہیں اور اپنے ماں باپ بیوی بچوں کے ساتھ پر سکون زندگی گذار سکتے ہیں ۔۔