تصویر نظر میرا تصور ہی بنے گا
محفل میں وہ جب اپنے مقابل سے ملیں گے
عام آدمی پارٹی کیلئے نوشتہ دیوار
دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے نتائج سامنے آگئے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کی تمام تگ و دو اور جدوجہد کے باوجود بی جے پی کو یہاں بھی شکست نہیں دی جاسکی ہے ۔ یہ امید کی جا رہی تھی کہ عام آدمی پارٹی ایک ڈسیپلن والی فورس ہے اور یہاں بی جے پی کیلئے میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا تاہم بی جے پی نے یہاں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے جس طرح سے اترپردیش اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد سے ‘ جس میں اس نے حالانکہ مقابلہ نہیں کیا تھا ‘ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے خلاف رائے کا اظہار کرنا شروع کیا تھا اسی طرح اب دہلی میونسپل کارپوریشن انتخابات میں بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو مورد الزام ٹہرایا جا رہا ہے ۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا جو مسئلہ ہے وہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے اور اس پر ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہوگی لیکن اس حقیقت سے انکار کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ عام آدمی پارٹی میں دراڑیں پڑنی شروع ہوگئی ہیں۔ اس کی صفوں میں بھی بے چینی اور عدم اطمینان پیدا ہونے لگا ہے ۔ پارٹی کو پنجاب اسمبلی انتخابات میں جو اسمبلی نشستیں حاصل ہوئی تھیں حالانکہ وہ پارٹی کی توقعات سے کافی کم تھیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں پہلی بارمقابلہ کرتے ہوئے پارٹی نے اپنی ایک چھاپ ضرور چھوڑی ہے اور اس کو بہتر ڈھنگ سے پیش کرنے کی ضرورت تھی ۔ جہاں تک دہلی میں پارٹی کو توقعات سے کافی کم بلکہ مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ اس کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے ۔ اگر پارٹی کو آئندہ اپنے وجود کو برقرا ررکھنا ہے تو اسے ابھی سے پارٹی کے استحکام کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسے اپنی صفوں میں پیدا ہوگئی خامیوںکو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔اسے اس بات کا احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ کانگریس اور بی جے پی جیسی جماعتوں سے مقابلہ اس کیلئے آسان نہیں ہوگا ۔ اسے اپنے انداز پر ہی انحصار کرنے کی بجائے سیاسی تقاضوں کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہوگی اور جس مہم کے نتیجہ میں اس پارٹی نے دہلی کا اقتدار حاصل کیا تھا اسی کو اگر فراموش کردیا جائے تو یہ پارٹی کیلئے ٹھیک نہیں ہوگا ۔ پارٹی کو اب اپنی بقا کی فکر کرنی چاہئے اور اس کیلئے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوگی ۔
کرپشن کے خلاف جدوجہد نے عام آدمی پارٹی کو اقتدار بخشا تھا اور بی جے پی کو مودی کی لہر کے باوجود دہلی میں تقریبا صفایہ کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس کامیابی کو ایسا لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی سنبھال نہیں پائی ہے ۔ چیف منسٹر اروند کجریوال اور ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا پارٹی کی صفوں میں استحکام لانے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ پارٹی میں استحکام کیلئے کیڈر کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔ عام آدمی پارٹی میں ایسا نہیں ہو رہا ہے ۔ صرف عوام پر تکیہ کیا جا رہا ہے اور عوام پر اثر انداز ہونے کی اس کی جو حکمت عملی ہے ایسا لگتاہے کہ وہ دیرپا ثابت نہیں ہو رہی ہے ۔ اسے اپنی خامیوں کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے اور پھر انہیں دور کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ دہلی میں اسمبلی انتخابات کیلئے اور اس سے قبل لوک سبھا انتخابات کیلئے ابھی وقت ہے ۔ اس وقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ شفاف سیاست کا وعدہ کرنے والی جماعت کو اپنی صفوں سے ان عناصر کے خلاف نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے جو کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اروند کجریوال اگر کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کی مدافعت پر اتر آتے ہیں تو اس سے عوام کو مایوسی ہوگی اور شائد یہی وجہ رہی کہ دہلی کے حلقہ اسمبلی راجوری گارڈن اور پھر میونسپل انتخابات میں پارٹی کو مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ اس میں کچھ دوسرے عوامل بھی ضرور ذمہ دار رہے ہیں لیکن پارٹی کو سب سے پہلے اپنی صفوں میں استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور صرف چند چہروں پر پارٹی کو آگے بڑھانے میں اسے کامیابی نہیں مل سکتی ۔
پارٹی کے جو قائدین ناراض ہیں ان کی جائز شکایات کا ازالہ کرنے پر بھی اروند کجریوال اور منیش سیسوڈیا کو توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ جو لوگ کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنا ہوگا ۔ انہیں یہ تاثر دوبارہ مستحکم کرنے کی ضرور ت ہے کہ کرپشن کے مسئلہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا ۔ عام آدمی پارٹی کے معرض وجود میں آنے اور پھر دہلی میں اقتدار حاصل کرنے سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ شفاف سیاست میں یقین رکھنے والے عوام ایک بار پھر اس جمہوری عمل کا حصہ بنیں گے اس امید کو دم توڑنے سے بچانے کی ذمہ داری عام آدمی پارٹی پر عائد ہوگی اور سب سے زیادہ اروند کجریوال اور منیش سیسوڈیا کو اسی پہلو پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو نتائج دہلی میونسپل کارپوریشن کے سامنے آئے ہیں ان کا جائزہ لینے اور پارٹی کی خامیوں اور نقائص کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں دور کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔