عام آدمی پارٹی کا بحران

غم لگے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایئہ دیوار کے ساتھ
عام آدمی پارٹی کا بحران
دہلی میں بے مثال کامیابی کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی بحران کا شکار ہوگئی ہے ۔ پارٹی کو خود اپنے ہی دو بانی قائدین یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن نے تنقیدوں کا نشانہ بنایا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کے کنوینر اروند کجریوال نے غیر جمہوری اور آمرانہ انداز اختیار کرلیا ہے اور وہ پارٹی میں دوسروں کو زبان کھولنے اور پارٹی کے بنیادی اصولوں پر سوال اٹھانے کا موقع دینے کو تیار نہیں ہیں۔ پارٹی قائدین نے کہا ہے کہ وہ پارٹی سے استعفی پیش کرنے کو بھی تیار ہیں بشرطیکہ انہوں نے پارٹی میں جو سوال اٹھائے ہیں انہیں پورا کردیا جائے اور ان کا جواب دے کر مطمئن کیا جائے ۔ پرشانت بھوشن اور کچھ دوسرے قائدین کا کہنا ہے کہ اروند کجریوال نے گذشتہ سال دہلی میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے کانگریس کے ارکان اسمبلی کو لالچ دینے کی کوشش کی تھی ۔ اب یہ سوال اٹھانا بے فیض ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس وقت پرشانت بھوشن اور پارٹی کے دوسرے قائدین نے پارٹی کا ساتھ دیتے ہوئے عملا اس اقدام کی خاموش حمایت ہی کی تھی ۔ یوگیندر یادو گذشتہ دونوں سے ناراض ہی نظر آتے ہیں اور جب سے اروند کجریوال نے دہلی کے چیف منسٹر کی حیثیت سے دوسری مرتبہ حلف لیا تھا اور وہ علاج کیلئے بنگلورو چلے گئے تھے اس وقت سے وہ سر عام اپنی ناراضگیوںکا اظہار کرنے میں مصروف ہیں۔ ان دونوں قائدین کو منانے اور پارٹی کی صفوںمیں برقرار رکھنے کی عام آدمی پارٹی کی جانب سے حالانکہ کوششیں ہوئی ہیں لیکن یہ کوششیں بھی ویسی نہیں کہی جاسکتیں جیسی ہونی چاہئے تھیں۔ اب دہلی کے عوام میں اور ملک بھر کے عوام میں بھی یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی بھی ‘ جس نے ایک انقلابی تحریک کے ذریعہ اقتدار حاصل کیا تھا ‘ دوسری جماعتوں سے مختلف نہیں ہیں ۔ وہاں بھی پارٹی میں داخلی جمہوریت نہیں ہے اور و ہاں بھی پارٹی قائدین میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہ اختلافات اب پوری شدت کے ساتھ منظر عام پر آ رہے ہیں۔ یہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ فریقین ان اختلافات کو پارٹی فورم میں رکھ کر حل کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ اپنے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے میڈیا کا بھی سہارا لینے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
ابھی یہ بات پورے وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ ان اختلافات کے پس پردہ محرکات کیا ہیں۔ یوگیندر یادو یا پرشانت بھوشن نے جو سوال اٹھائے ہیں ان میں کتنی سچائی ہے ۔ یہ دعوی کس حد تک درست ہے کہ اروند کجریوال آمرانہ رویہ رکھتے ہیں اور وہ پارٹی میں داخلی جمہوریت کوفروغ دینے کوتیار نہیں ہیں لیکن یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عام آدمی پارٹی کا قیام ایک انقلابی تحریک کے ذریعہ عمل میں آیا تھا اور اس تحریک نے ملک بھر کے عوام کو متاثر کیا تھا ۔ سماج کو اور ملک کے سیاسی نظام کو بدعنوانیوں اور کرپشن سے پاک کرنے کی تحریک نے عام آدمی پارٹی کو اقتدار سونپا ہے ۔ دہلی کے عوام نے اس پارٹی کو بے مثال تائید فراہم کرتے ہوئے انہیں سماجی سطح پر اصلاحات کے عمل میں کچھ کردکھانے کا موقع فراہم کیا تھا اور اس موقع سے کس حد تک اصلاحات لائی جاتی ہیں عوام اس کو دیکھنے کے منتظر ہیں ۔ اگر ایسے میں عام آدمی پارٹی میں اختلافات شدت اختیار کرجاتے ہیں اور پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہوجاتا ہے تو تمام قائدین اور فریقین کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ اس سے عوام کی توقعات اور امیدیں چکنا چور ہوجائیں گی اور عوام نے جس جذبہ کے ساتھ عام آدمی پارٹی کو دہلی میں اقتدار سونپا ہے وہ بے سود ثابت ہوجائیگا ۔ اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی فریقین کو آئندہ اپنے رویہ اور کام کاج میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ جو جذبہ ابتدائی دنوں میں تھا اسے برقرار رکھا جانا چاہئے ۔
یقینی طور پر جہاںکچھ قائدین ایک جگہ ہوتے ہیں ہر ایک کا نظریہ اور نقطہ نظر مختلف ہوسکتا ہے اور ان میں اختلافات بھی ہوسکتے ہیں۔ اختلافات جمہوریت کی علامت ہی ہیں لیکن ان اختلافات کو پارٹی کے بنیادی اصولوں سے ٹکرانے کی اجازت دینا اور پارٹی کے امیج کو متاثر ہونے کا موقع فراہم کرنا کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں ہوسکتا ۔ اروند کجریوال اور ان کے ساتھی ہوں یا پھر یوگیندر یادو یا پرشانت بھوشن سبھی کو ایک بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جس انقلابی تحریک نے اس پارٹی کو جنم دیا تھا اس تحریک کے مقاصد اور عزائم کو نقصان نہیں ہونا چاہئے ورنہ ملک کے عوام آئندہ اس طرح کی انقلابی تحریکوں کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرینگے ۔