بدلتے موسم پہ اپنی امیدیں نہ رکھنا
دن بہاروں کے مختصر ہوا کرتے ہیں
عام آدمی پارٹی میں اختلافات
ہندوستان کی سیاست کو ایک نئی جہت فراہم کرنے کا ادعا کرنے والی عام آدمی پارٹی نے دہلی کے انتخابات میں بے مثال کامیابی حاصل کرتے ہوئے سارے ملک کی توجہ حاصل کرلی تھی ۔ اس نے بی جے پی کو اس کے عروج کے زمانہ میں دھول چٹائی اور کانگریس کا دہلی کی سیاست سے عملا صفایا کردیا ہے ۔ دہلی کے عوام کو تو اس پارٹی سے امیدیں وابستہ تھیں ہی لیکن اس شاندار کامیابی کے بعد ملک کے کچھ اور گوشوں نے اس پارٹی کے تئیں سوچنا شروع کردیا تھا ۔ ملک بھر میں ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے دہلی انتخابات میںاس پارٹی کی کامیابی کی خواہش کی تھی اور وہ اس پارٹی کے خاموش پرستار ہیں۔ شفاف سیاست اور پاک صاف حکمرانی کی خواہش رکھنے والے عوام نے عام آدمی پارٹی سے اپنی توقعات وابستہ کی تھیں اور یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ یہ پارٹی ہندوستان کی پراگندہ سیاست میں کچھ حد تک بہتری لائیگی تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس پارٹی میں بھی داخلی اختلافات نے اسے بھی دوسری جماعتوں کی صف میں لا کھڑا کردیا ہے ۔ دہلی میں اقتدار حاصل کئے ابھی ایک مہینے کا وقت بھی نہیں گذرا ہے کہ اس پارٹی میں داخلی اختلافات شروع ہوگئے ہیں۔ سینئر قائدین کو پارٹی کی صفوں سے نکال باہر کیا گیا ہے اور یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ درست ہے کہ اس پارٹی کو قائم ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا ہے اور اسے سیاسی اتھل پتھل سے نمٹنے کا اتنا وسیع تجربہ نہیں ہے جتنا دوسری جماعتوں کو ہے لیکن ابتدائی مراحل میں اس طرح کی صورتحال پارٹی کے مستقبل کیلئے ایک اچھی علامت نہیں کہی جاسکتی ۔ جس انداز سے پارٹی میں اختلافات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور کچھ گوشے اس صورتحال کا استحصال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں اس سے پارٹی کو یقینی طور پر منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ دہلی کے عوام کے بے مثال اظہار اعتماد کے بعد پارٹی کو داخلی اختلافات کی گنجائش ہی فراہم نہیں کرنی چاہئے تھی اور اسے پارٹی میںاستحکام لانے کی کوششوں کے ساتھ دہلی کے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کیلئے عملی کوششیں شروع کرنے کی ضرورت تھی لیکن صورتحال اب قدرے مختلف ہوتی جا رہی ہے ۔
پارٹی کے دو سینئر قائدین یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن کو پارٹی کی سیاسی امور سے متعلق کمیٹی سے علیحدہ کردیا گیا حالانکہ یہ دونوں پارٹی کے بانی قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔ بعض قائدین جہاں ان دونوں کی علیحدگی کے ہی مخالف ہیں وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو ان کی علیحدگی کے انداز کو پسند نہیں کرتے ۔ کچھ دبے دبے الفاظ میں کہتے ہیں کہ اختلاف رائے کی وجہ سے دونوں کے خلاف یہ کارروائی کی گئی ہے ۔ بعض پارٹی قائدین کی رائے یہ ہے کہ اروند کجریوال نے حالانکہ ان دونوں کی علیحدگی والے اجلاس میں شرکت نہیں کی لیکن وہ بالواسطہ طور پر اس ساری کارروائی کے ذمہ دار ہیں۔ بحیثیت مجموعی پارٹی میں اختلافی رائے بننی شروع ہوگئی ہے اور اگر اس کو مزید پھلنے پھولنے دیا گیا اور اگر یکطرفہ فیصلے کرتے ہوئے سینئر قائدین کو نشانہ بنایا جاتا رہا تو عام آدمی پارٹی بھی دوسری جماعتوں سے مختلف ہونے کا ادعا نہیں کر پائیگی ۔ یہ ضرور ہے کہ مخالف جماعتیں اس صورتحال سے خوش ہو رہی ہیںاور وہ اس کا استحصال بھی کرنا چاہتی ہیں لیکن اگر عام آدمی پارٹی کو دہلی کے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کرنی ہے اور ملک کے عوام کو یہ تاثر دینا ہے کہ پاک صاف انداز میں بھی حکومت چلائی جاسکتی ہے جو کارپوریٹ شعبہ اور کاروباری برادری کی بجائے عام آدمی کی فلاح و بہبود پر توجہ دے سکتی ہے تو پھر پارٹی کو اپنے داخلی اختلافات کو ایک سلجھے ہوئے اور موثر انداز میں قابل قبول طریقہ سے حل کرنا چاہئے ۔
عام آدمی پارٹی کو دہلی میں اقتدار سنبھالے ہوئے ابھی چند ہفتے ہی ہوئے ہیں اور اگر پارٹی داخلی اختلافات میں مزید کچھ وقت گنوادیتی ہے تو پھر عوامی وعدوں کی تکمیل کی سمت اس کی توجہ نہیں رہ پائیگی ۔ کچھ وقت اور گذرتا ہے تو دہلی کے عوام ‘ جنہوں نے پارٹی کو بے مثال کامیابی سے ہمکنار کیا تھا ‘ اس حکومت میں یقین رکھنا ترک کردینگے اور وہ وعدوں کی تکمیل کیلئے حکومت کو مجبور کرنے احتجاج کا راستہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ ہر سیاسی جماعت میں اختلاف رائے ہوتا ہے اور یہ اختلاف رائے اگر تعمیری اور با مقصد ہو تو جمہوریت میں اس کا خیر مقدم ہونا چاہئے ۔ داخلی سطح پر جو اختلافات ہیں ان کو موثر اور سلجھے ہوئے انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اختلافات کو یکطرفہ فیصلوں کے ذریعہ ختم کرنے کی کوشش کے منفی اثرات بھی ہوسکتے ہیں۔