عام آدمی پارٹی سے استعفی

یہ انتشار نظر آرہا ہے جو ہم کو
ثبوت ہے کہ وہ مخلص نہیں ہیں مقصد میں
عام آدمی پارٹی سے استعفی
عام آدمی پارٹی نے تیزی سے ابھر کر عجلت پسندی کا مظاہرہ کر کے اپنے لئے کئی مسائل پیدا کرلئے ۔ پارٹی کے صدر اروند کجریوال بھی پے درپے کامیابی ملنے کے بعد اچانک زوال کی کھائی میں گرتے چلے گئے۔ دہلی کی 49 روزہ حکومت کرنے والی پارٹی پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا۔ کجریوال کو جب احساس ہوا تو کافی دیر ہوچکی تھی اس لئے انہوں نے عوام سے معذرت خواہی بھی کرلی۔ اب پارٹی پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے ۔ پارٹی کے دو سینئر ارکان شاذیہ علمی اور کیپٹن گوپی ناتھ نے استعفی دیدیا ہے۔ کجریوال کو جیل بھیج دیا گیا ۔ دہلی میں حکومت سازی یا اسمبلی کی تحلیل کا مقدمہ لیفٹنٹ گورنر نجیب جنگ کے پاس ہے اس پارٹی کا مسئلہ یہ تھا کہ اس میں دانشوروں کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی جب چار دانشور ملتے ہیں تو ان کے نظریہ اور فکر میں ٹکراو پیدا ہونا لازمی ہے تاہم کجریوال نے اپنے کئی دانشور ساتھیوں کو ساتھ لے کر اپنی دانش کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی اس جدوجہد کے ابتدائی نتائج خوش نما تھے لوگوں نے نظریہ کجریوال سے اتفاق کیا ۔ رشوت ستانی کے خلاف مہم میں حصہ لیکر انہیں کامیاب بنایا مگر اپوزیشن کی چالبازیوں کے سامنے وہ خودکو شکست خوردگی کی پوشاک میں گھسا کر غلطیاں کرنی شروع کی۔ رشوت کے خلاف مہم ،جن لوک پال بل کو سردست منظور کرانے کی ضد اور پھر اچانک دہلی حکومت سے استعفی کا فیصلہ نے اپوزیشن کی سازشوں کو کامیاب بنادیا ۔ جس کے نتیجہ میں سارا ملک جس پارٹی پر یقین و اعتماد کرنے لگا تھا اور بی جے پی کے حوصلے پست ہورہے تھے یکایک تبدیلی آئی۔ عام آدمی کا ذہن بدل کر مودی کی لہر چلائی گئی ۔

کجریوال نے مودی کو پیچھے چھوڑنے کی رفتار سے آگے بڑھ کر اچانک ایسا رخ تبدیل کیا کہ لوگوں کو ان کی یہ تبدیلی پسند نہیںآئی ۔ لوک سبھا انتخابات میں 100 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کیا تھا لیکن ہندوستان کی صرف ایک ریاست پنجاب میں ہی پارٹی کو چار حلقوں میں کامیابی مل پائی ۔ کئی ریاستوں میں پارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ اس طرح کم عرصہ میں سیاسی بلندی تک چھلانگ لگانے والی پارٹی کو اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے خسارہ سے دوچار ہونا پڑا ۔ پارٹی کے دانشوروں کی ٹیم بھی اب دھیرے دھرے اپنی راہ لے رہی ہے ۔ اگرچیکہ یہ وقت پارٹی کو مضبوط بنائے رکھنے ان کو متحد ہونا ضروری ہے ۔ کجریوال کے جیل جانے سے جن ارکان کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی وہ پارٹی چھوڑ رہے ہیں ۔ شاذیہ علمی نے الزام عائد کیا ہے کہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا فقدان پایا جات ہے ۔ یہاں صرف چند ایک کی مرضی کام کررہی ہے گوپی ناتھ اور پارٹی قیادت کے درمیان اختلافات میں اضافہ سے استعفی کی صورت پیدا ہوگئی ۔ پارٹی کنوینر اروند کجریوال کے تعلق سے دونوں مستعفی ہونے والے قائدین کی رائے غور طلب ہے ۔ جس پارٹی نے ہر ایک کی بھلائی،عام آدمی کی ترقی کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا تھا از خود چند قائدین کی بقاء اور اپنی مرضی سے پارٹی چلانے کی ضد میں کمزور بنادیا ۔اب پارٹی کو اپنی بقاء کیلئے جدوجہد کرنی پڑے گی تو وہ عوام کے مسائل کو کس طرح حل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ قومی سطح پر بی جے پی کو کسی بھی سیاسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے وہ اپنے سامنے ایک مضبوط اپوزیشن کی عدم موجودگی کا سارا فائدہ اٹھائے گی۔ جن لوگوں نے عام آدمی پارٹی میں اپنے مستقبل کو روشن ہوتا دیکھنے کی آرزو کی تھی انہیں شدید دھکہ پہونچا ہے ۔عام آدمی پارٹی کے والینٹرس میں بھی بے دلی پیدا ہورہی ہے۔ واضح طور پر اب عام آدمی پارٹی سیاسی سطح کی سب سے بلند چٹان پر پہونچ کر اچانک صفر سطح کی جانب پھسلتے جارہی ہے تو اس کو سنبھالنے کیلئے مضبوط قیادت ہی نہیں ہے۔

رشوت کا مسئلہ ،کالا دھن ،گیاس کی قیمتیں، مہنگائی اور تمام اہم معاشی مسائل سے دوچار عوام نے دل پر پتھر رکھ کر بی جے پی کو ووٹ دیا ہے تو عام آدمی پارٹی یا دیگر پارٹیوں کے لئے لمحہ فکر ہے ۔ ان کی کارکردگی ،ان کی سیاسی سوچ ،انتخابی منشور تمام رائیگاں چلے گئے ہیں ۔ شاذیہ علمی اور گوپی ناتھ نے جس طرح کے الزامات عائد کئے ہیں یہ ہر پارٹی میں ہوتے ہیں لیکن پارٹی قیادت اپنی صلاحیتیوں اور کوششوں سے ان تمام خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اپنی ضد کی خاطر جیل میں رہ کر پبلیسٹی کرانے کی کوشش کرنے والے کجریوال کو آگے چل کر اپنے ہی ہاتھوں پارٹی کو نقصان پہونچانے کا بھی احساس ہوگا تو بڑا دکھ ہوگا ۔ خرابی کا پتہ اس وقت نہیں چلتا جب حالات موافق ہوتے ہیں ۔ وقت گذرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ہاں غلطی ہوئی ہے مگر عام آدمی پارٹی کی قیادت ہنوز اس خرابی کا اندازہ کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ۔ انتخابات میں جب بی جے پی کو کامیابی ملی تو اس ملک کے عام آدمی نے محسوس کیا کہ وہ الیکشن ہار گئے ہیں ۔ فرقہ پرست طاقتوں نے اپنی طاقت دکھا کر غریب عوام کو مایوس کردیا ایسے میں عام آدمی پارٹی پر بھروسہ کرنے والوں نے صبر کا دامن چھوڑ دیا اور فرقہ پرستوں کی ہاں میں ہاں ملانے والوں کے ساتھ ہوگئے یہ ایسی بھیانک تبدیلی ہے جس نے ہندوستان کی جمہوری،دستوری اور سیکولر بنیادوں کو متفکر کردیا ہے ۔ ہر سیکولر گھر سے دہاڑیں مار کر رونے کی آوازوں کو سنا جارہا ہے تو یہ آوازیں بھی آہستہ آہستہ کمزور ہوںگی تو پھر ملک کے حالات پر صرف ایک طاقت یعنی فرقہ پرستوں کا راج ہوگا ۔ اس کی ذمہ داری عام آدمی پارٹی سے لیکر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے کندھوں پر پڑے گی لہذا عام ادمی پارٹی کی قیادت کو چاہئے کہ اپنی ٹیم کو بکھرنے سے بچانے کی کوشش کرے ۔