مدورائی۔26نومبر ( سیاست ڈاٹ کام)مدراس ہائیکورٹ کے ایک جج نے یہ کہتے ہوئے اداکار عامر خان کی تائید کی کہ انہوں نے کوئی غلط بات نہیںکہی ہے بلکہ ان کے اور ان کی بیوی کرن راؤ کے درمیان بات چیت میں عوام کو شریک کیا ہے ۔ وہ عدم رواداری اور آزادی تقریرو اظہار کے موضوع پروکلاء کے فورم کے زیراہتمام منعقدہ سمینار سے خطاب کررہے تھے ۔ فورم برائے سماجی انصاف نے کل رات یہ سمینار منعقد کیا تھا ۔ جسٹس ڈی ہری پرانتنم نے کہا کہ اداکار نے صرف صدمے اور حیرت کا اظہار کیا ہے جب کہ ان کی بیوی نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ بڑھتی ہوئی عدم رواداری کی بناء پر کسی اور ملک کو منتقل ہوجانا چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ عامر گرما گرم مباحث کا مرکزی موضوع بن گئے ہیں جس سے خوف اور اس پر ردعمل کا اظہار ہوتا ہے جو گذشتہ چھ تا آٹھ ماہ سے بڑھتی ہوئی عدم رواداری کے واقعات کے سلسلہ میں ہے ۔ عامرخان نے کہا کہ’’کرن اور میں ہندوستان میں پوری زندگی بسر کرچکے ہیں ‘ یہ پہلی بار ہے کہ انہوں نے کہا کہ کیا ہمیں ہندوستان سے کہیں اور منتقل ہوجانا چاہیئے ۔ وہ اپنے بچے کے بارے میں اندیشوں کا شکار تھی ‘ انہیں ہمارے افراد کے ماحول کی فکر تھی ‘‘ ۔ ہری پرانتنم نے کہا کہ عدم رواداری میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ حکمراں مذہب سے دوری برقرار نہیں رکھتے ۔ ایک شخص کو صرف اس شبہ میں کہ اس نے بڑا گوشت کھایا تھا ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ ایک معقولیت پسند کا قتل اس کا ثبوت ہے کہ ملک میں غیر معلنہ ایمرجنسی نافذ ہے ۔ جج نے کہا کہ دستور کی دفعہ 48کی آخری سطر میں ترمیم کی جانی چاہیئے جو ریاستوں کے بارے میں اظہار کرتا ہے کہ انہیں ذبیحہ گاؤ پر امتناع کیلئے اقدامات کرنے چاہیئے ۔ جج نے کہا کہ صرف ایسا سماج جبراور عدم رواداری کے خلاف مستحکم ہوسکتا ہے ۔ جب کہ سماج کو دیگر اداروں پر بشمول عدلیہ انحصار نہ کرنا پڑے تاکہ اُسے حقوق حاصل ہوسکیں ۔ انہوں نے کہا کہ کئی ایسے فیصلے کئے جاچکے ہیں جوجبر کے خلاف ہیں ۔ مجبور عوام کو اپنے حقوق کیلئے عدلیہ سے رجوع ہونے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ صرف عدالتیں حقوق دلوانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ برتر عدلیہ کیلئے تحفظات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ صرف 9 درج فہرست ذاتوں کے وکلاء کو مدراس ہائیکورٹ کے ججس کے عہدہ پر ترقی دی گئی جب کہ مدراس ہائیکورٹ 153سال قدیم ہے ۔ صرف 6جج آزادی سے پہلے سپریم کورٹ کے جج بن سکیں ۔