عالم عرب کی خاموشی

عالم اسلام میں کیا اخوت بھائی چارہ کا فقدان ہے؟ فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی بربریت پر عالم اسلام کی خاص کر عالم عرب میں پائی جانے والی خاموشی افسوسناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل ہر روز غزہ پر بمباری کررہا ہے اور عرب اقوام خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اخوت جس کو کہتے ہیںوہ آج انسان بالخصوص مسلمانوں میں کم دکھائی دے رہا ہے۔ عالم اسلام اور عالم عر ب نے جب تک اسرائیل کو ایک ناجائز ملک اور مشرق وسطیٰ کا ناسور سمجھا تھا، یہودیوں کی نیندیں حرام تھیں لیکن امریکہ اور یوروپ کے دباؤ یا عالم عرب کی بزدلی سے اسرائیل کو آج مشرق وسطی میں درندہ صفت کارروائیاں کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ امریکہ حسب روایت اسرائیل کی زبردست حمایت و مدافعت کرتا رہا ہے اب بھی وہ اسرائیل کی غیر انسانی کارروائیوں پر چپ ہے۔ صرف مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے حملوں کو فوری روکنے کے بیانات دے رہا ہے۔ صدر امریکہ بارک اوباما نے مزید شہریوں، بچوں اور خواتین کو موت کی نیند سوتا ہوا نہ دیکھنے کی غرض سے حملوں کو فوری روک دینے کی ضرورت ظاہر کی لیکن اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی کوئی ہمت نہیں دکھاسکے۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری مصر پہونچ کر جنگ بندی کرانے کی راہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ جنگ بندی کا مسئلہ اس وقت ہوسکتا ہے

جب دونوں متحارب گروپ یکساں طاقتور ہوں یہاں تو نہتے فلسطینیوں پر بمباری کرنے والا ملک اسرائیل اندھا دھند طریقہ سے اپنی ناجائز طاقت کا استعمال کررہا ہے تو عالم انسانیت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے۔جنگ بندی کا سوال اُٹھانے والے اسرائیل کی جارحیت کو جائز قرار دے رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران معصوم فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنے والے ظالم یہودیوں کے بارے میں امریکہ، یوروپ اور دیگر مغربی ملکوں کو حقائق اور خون ریزی نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس کو آج ساری عصری دنیا اور سمجھدار اقوام کے لوگ اپنی کھلی آنکھ سے دن رات دیکھ رہے ہیں۔ مہذب معاشرہ سمجھے جانے والی مغربی دنیا کے لوگ فلسطینیوں کی اموات پر اپنی آنکھ بند رکھی ہوئی ہیں تو پھر یہ ایک انسانی المیہ سے کم نہیں ہے۔ گزشتہ 15دن سے غزہ کو لہو لہان کرنے والے اسرائیل نے اب تک کئی مسلم خاندانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ ہزاروں افراد کو بے گھر کردیا ہے۔ غزہ خان یونس میں ایک ہی خاندان کے 20 ارکان کو شہید کرنے والی طاقتوں کے تعلق سے امریکہ اور روس کے حلیف ممالک صرف یہی کہتے رہے ہیں کہ اسرائیل اپنے دفاع کے لئے مناسب اور جائز کوشش کررہا ہے۔ اس لڑائی میں واضح طور پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اس کے باوجود کوئی بھی بین الاقوامی طاقت اور قانون کی دہائی دینے والی تنظیمیں اسرائیل کو سبق سکھانے پر غور نہیں کررہی ہیں۔ عالم عرب کی بے حسی نے عالم اسلام کو مزید مضطرب اور بے چین کردیا ہے۔

سعودی عر ب کے فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز سے مراقش کے شاہ محمد نے ریاض میں ملاقات کے دوران اسرائیل کی جارحیت پر تبادلہ خیال کیا مگر اس کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے عالمی طاقتوں کی توجہ مبذول کرانے یا دباؤ ڈالنے کے لئے ٹھوس فیصلہ نہیں کیا گیا۔ فلسطینیوں کی زائداز ایک لاکھ تعداد کھلے آسمان کے نیچے یا امدادی اسکولوں، بیرونی ایجنسیوں کی عمارتوں میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ صرف اسکولوں میں ہی 85000 افراد مقیم ہیں۔ یہ منظر اور حالات انسانی دلوں کو زبردست صدمہ پہونچاتے ہیں مگر سربراہان مملکت عرب کی حس میں ذرا سی بھی جنبش نظر نہیں آئی۔ فلسطینیوں کی شہادتوں کی تعداد 550 سے زائد ہوگئی ہے۔ نوجوان اور ضعیف افراد اپنے ہاتھوں میں کم سن بچوں کی لاشیں اُٹھاکر ساری دنیا کی بے حسی پر ماتم کررہے ہیں۔ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردغان نے اسرائیل اور مغرب کے خلاف شدید احتجاج کرکے اپنی دلی تکلیف کا اظہار کیا ہے مگر عملی طور پر حکومت ترکی نے بھی کوئی سخت قدم نہیں اُٹھایا۔ ایران کو اس علاقہ کی سب سے بڑی طاقت سمجھا جاتا ہے فلسطینیوں کے حق میں اس کی آواز کو اہمیت حاصل ہے مگر اس کی خاموشی کے اسباب واضح نہیں ہیں۔ فلسطین میں جنگجو گروپ حماس اپنے طور پر اسرائیلی جارحیت کا جواب دیتے آرہا ہے۔ عرب مجاہدین کی شجاعت و مردانگی کے قصیدے پڑھنے والے عربوں کی قیادت اس وقت نرم گدوں میں میٹھی نیند سو رہی ہے۔ رمضان کے دوران ہر مسلم کا دل تڑپ رہا ہے مساجد میں خصوصی دعائیں ہورہی ہیں، فلسطینیوں کی مدد کے لئے عالم اسلام خاص کر عالم عرب کو اپنی موجودگی کا احساس دلانا ہوگا۔