عالمی پولیس مین

کون کرتا ہے وفاؤں کا تقاضہ تم سے
ہم تو اِک جھوٹی تسلی کے طلب گار تھے بس
عالمی پولیس مین
عراق کا تاخیر سے دورہ کرنے والے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے اس احساس کا اظہار کیا کہ اب امریکہ عالمی پولیس کا رول ادا نہیں کرے گا۔ اب تک امریکہ کو دیگر ملکوں میں خاص کر مسلم ملکوں میں ڈنڈا اٹھائے پولیس مین کا رول ادا کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ مسلم ممالک میں امریکی فوج کے بوٹوں کی آوازیں کرکے ڈر و خوف پیدا کرنے کی ماضی کی روایت ختم کردی جائے گی۔ صدر ٹرمپ کا یہ اعلان شام اور افغانستان ، عراق، لیبیا میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔ انہوں نے جنگ زدہ ملکوں سے اپنی فوجوں کو واپس طلب کرنے سے متعلق اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ اگرچیکہ قیام امن کے لئے عالمی ذمہ داریوں اور تقاضوں کو پورا کرنے کے مشن کے حصہ کے طور پر فوج تعینات کی جاتی ہے مگر صدر ٹرمپ کی پالیسیاں دیگر امریکی سابق صدور سے ہٹ کر وضع ہورہی ہیں۔ ٹرمپ نے عراق کا دورہ کرنے کا فیصلہ بہت تاخیر سے کیا لیکن اس دورہ میں انہوں نے عراق کے سربراہ سے ملاقات نہیں کی۔ ٹرمپ کے اس رویہ پر عراقی پارلیمنٹ میں شیعہ بلاک اصلاح کے سربراہ صباح الساعدی نے اسے عراق کی خودمختاری کی کھلے عام خلاف ورزی قرار دیا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ امریکہ نے ہر ملک کے مقتدر اعلیٰ خاص کر جنگ زدہ ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات سے گریز کیا ہے ۔ جس ملک میں امریکی فوج تعینات ہے، وہاں کے وزیراعظم سے اختلافات کے باعث ملاقات نہ کرنا افسوسناک بات ہے۔ دورہ کے منصوبہ میں تو عراقی وزیراعظم عدل عبدالمہدی سے ملاقات کا پروگرام شامل تھا لیکن یہ ملاقات بغیر کسی وجہ کے منسوخ کردی گئی۔ ٹرمپ نے یہ دورہ صرف اپنے سپاہیوں سے ملاقات کرنے ان کے ساتھ کرسمس منانے، سیلفی لینے اور اپنی بیوی مینیلا ٹرمپ کو سیر کرانے کیلئے کیا تھا۔ اس دورہ کے دوران انہوں نے عالمی سطح پر امریکہ کے پولیس مین کا رول ادا کرنے کا خیال ستانے لگا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اب امریکہ کو فوجی کارروائیوں پر مصارف برداشت نہیں ہورہے ہیں۔ اسی لئے جنگ زدہ ملکوں سے امریکی افواج کو واپسی کے فیصلے کئے جارہے ہیں۔ ایران، روس اور شام کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا خیال یہی ہے کہ شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی مقامی نوعیت کی ہے۔ اس میں امریکہ کو زیادہ سرگرم نہیں ہونا چاہئے۔ بادی النظر میں امریکہ ان کا رروائیوں سے بیزار ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے اعلان اور شام سے امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے سے شدت پسند تنظیم کو خطے میں ایک بار پھر قدم جمانے کا موقع ملے گا۔ امریکہ اس ملک سے چلا جاتا ہے تو بلاشبہ ایک خلا پیدا ہوگا اور امریکہ کا ساتھ دینے والے اپنے دشمنوں کے درمیان پھنس جائیں گے۔ عالمی پولیس مین کا رول ادا کرنے کو اچانک ترک کردینے سے وہ لوگ متاثر ہوں گے جو آج تک امریکہ پر انحصار کرتے تھے ۔ فوج کی واپس طلبی کے فیصلے کو روس کے سامنے امریکہ کے مرعوب ہونے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے ۔ شام میں روس کے خلاف امریکی فوج کو مضبوط بنانے کا ارادہ رکھنے کے باوجود امریکہ نے دبے پاؤں اپنی فوج ہٹالینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے روس کی ہی جیت سمجھی جائے گی۔ خود امریکی ری پبلیکن سینیٹرس نے اپنے صدر کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔ اس سال کے اوائل میں ہی جب صدر ٹرمپ نے شام میں امریکہ کی فوج کو غیرمعینہ مدت تک رکھنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن ان 11 مہینوں میں ٹرمپ نے فیصلہ تبدیل کردیا ہے تو عالمی پولیس مین کا کردار ادا کرتے ہوئے وہ اب اپنے ملک کو مزید کمزور ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔ بہرحال آنے والے دنوں میں ٹرمپ نظم و نسق کا موقف کس کروٹ لے گا، یہ قابل غور ہوگا۔
بنگلہ دیش میں آج پارلیمانی انتخابات
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین ،کارکنوں کو سرکاری بالادستی کے ذریعہ خوف زدہ کرنے جیسے الزامات کے درمیان بنگلہ دیش میں آج پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں جہاں حکمراں پارٹی شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کو اپنی کارکردگی کے عوض ووٹ ملنے کی امید ہے تو اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) جو اپوزیشن کی جانب اوکیہ فرنٹ کا حصہ ہے، سیاسی تشدد کے الزام کا سامنا کررہی ہے۔ 10 ڈسمبر سے شروع ہوئی انتخابی مہم کے دوران الیکشن کمیشن نے ضروری اقدامات کئے ہیں۔ ان انتخابات میں 1800 امیدوار میدان میں ہیں جو 39 رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں کے نمائندے ہیں۔ ان میں وزیراعظم شیخ حسینہ چوتھی میعاد کیلئے مقابلہ کررہی ہیں۔ بنگلہ دیش کی مضبوط خاتون کے طور پر انہوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے ترقیاتی منصوبوں کے وعدے کے ساتھ ووٹ مانگا ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے اس ملک میں معاشی صورتحال مستحکم نہیں ہے تاہم عوامی لیگ حکومت کی قیادت کرتے ہوئے 71 سالہ شیخ حسینہ کو ان انتخابات میں دوبارہ کامیابی کیلئے اپنے حریف بی این پی اتحاد کے امیدوار 82 سالہ کمال حسین پر سبقت لے جانا ضروری ہے۔ ویسے یہ انتخابات بنگلہ دیش کی ایک اور مضبوط خاتون رہنما سابق وزیراعظم 74 سالہ خالدہ ضیاء کی غیرموجودگی میں ہورہے ہیں کیوں کہ عدالت نے انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دیا ہے۔ رشوت کے الزام میں وہ 17 سال کی جیل کی سزا بھی کاٹ رہی ہیں۔ بہرحال بنگلہ دیش کے 104 ملین رائے دہندوں کو اپنے بہتر مستقبل معاشی استحکام کیلئے ووٹ دینا ہے تو ان کا ووٹ ہی بنگلہ دیش کو ایک مضبوط سمت کی جانب لے جانے میں معاون ہوگا۔