حواس اپنے بچاکر رکھیں تو کیونکر ہم
ہر ایک سمت سے ظلم و ستم کی بارش ہے
عالمی فورم اور برصغیر
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو عالمی سطح پر بھی نمایاں دیکھا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کے دوران وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان پر حسب سابق دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تو پاکستان نے بھی اپنے جواب دینے کے حق سے استفادہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان مذہبی تنظیموں کی بالادستی کو بڑھاوا دیتے ہوئے ہندوستان بھر میں خوف کا ماحول پیدا کررہا ہے ۔ ہمارے خطہ میں دہشت گردی کی جڑوں کو مضبوط کرنے میں آر ایس ایس کی فاشزم کو مرکزیت حاصل ہوئی ہے ۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل اجلاس کے موقع پر ملاقات سے گریز کیا ۔ خاص کر وزیر خارجہ سشما سوراج کی تقریر نے فاصلوں کو مزید بڑھانے کا کام کردیا ہے ۔ کانگریس نے وزیر خارجہ کی تقریر کو تنقید کا نشانہ بنایا تو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ہندوستانی وزیر خارجہ کی تقریر دنیا میں ہندوستان کا مثبت اور جامع امیج بنانے میں ناکام رہی ہے ۔ ہندوستان میں جس طرح کا سیاسی ماحول بنایا گیا ہے یہی ماحول ساری دنیا کے سامنے پیش بھی کیا جارہا ہے ۔ کانگریس لیڈر ششی تھروو نے عالمی سطح پر ہندوستان کی بگڑتی ہوئی تصویر کو افسوسناک قرار دیا ۔ کیوں کہ اقوام متحدہ جیسے پلیٹ فارم کو بھی بی جے پی کے ووٹرس کو ذہن میں رکھ کر استعمال کیا گیا ۔ اس سے ساری دنیا میں یہ پیام گیا کہ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ تعمیری اور مثبت مذاکرات میں دلچسپی نہیں ہے ۔ مرکز کی مودی زیر قیادت حکومت نے پاکستان کو ہر زاویہ سے نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے ۔ پڑوسی ملک پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے اور سرکاری پالیسی کے تحت ہی وہ انسانیت کو لاحق خطرات والے گروپس کی سرپرستی کررہا ہے ۔ اس طرح کے الزامات کے تناظر میں دیکھا جائے تو امن بات چیت کی راہ ہموار کرنے میں دشواری ہوگی ۔ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان کے اندر سیاسی مجبوریوں اور پیچیدگیوں کو نمایاں کیاگیا ۔ اس لیے پاکستان کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت نے اپنے رائے دہندوں کی خاطر عالمی فورم کا بھی احترام نہیں کیا ہے ۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ سید اکبر الدین کے خیالات سے دونوں ملکوں کے کشیدہ تعلقات میں بہتری کا کوئی موقع ملتا ہے تو یہ ایک اچھی تبدیلی ہوگی لیکن عالمی مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم کو نظر انداز کردیا گیا ۔ ہر ایک ملک کو اپنے مقتدر اعلیٰ اختیارات کا حق حاصل ہے ہر ملک اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے لیکن تعلقات کو بگاڑکر خوشگوار فضا کی توقع کرنا فضول ہے ۔ اقوام متحدہ نے ہمیشہ عالمی مسائل کی یکسوئی کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں لیکن برصغیر کے دو ملکوں کے مسائل پر موقف غیر واضح ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ہندوستان نے عالمی برادری میں اپنی سیاسی شناخت کو قابل فخر طور پر پیش کیا ہے لیکن جہاں تک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا موقف اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کا سوال ہے اس مسئلہ کو بین الاقوامی رنگ دینے کی کوشش کا الزام تھوپ دیا جاتا ہے ۔ ہر سال اقوام متحدہ کے عالمی پلیٹ فارم سے پاکستان مسئلہ کشمیر کو اٹھاتا رہا ہے لیکن اس کو عالمی برادری کی جانب سے کوئی خاص ردعمل حاصل نہیں ہوتا ۔ نتیجہ میں پاکستان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس لیے ہورہا ہے کیوں کہ ہندوستان نے اپنا موقف جارحانہ اور منکرانہ بنالیا ہے ۔ اس لیے وہ مذاکرات کی میز تک پہونچنے سے گریز کرتا رہا ہے ۔ دہشت گردی کا جہاں تک سوال ہے اس ایک موضوع پر ہندوستان اپنا رویہ سخت بنائے رکھے تو برصغیر میں امن کی فضا قائم ہونے کی امید موہوم ہوگی جب کہ دہشت گردی عالمی تشویش کا مسئلہ بھی ہے ۔ دہشت گرد تنظیمیں ساری دنیا میں سرگرم ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام ممالک ایک دوسرے سے دوری اختیار کرلیں ۔ جب تک مسئلہ کا حل نکالنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوتی ہر دو جانب کشیدگی اور تنازعہ کی سنگین صورتحال برقرار رہے گی ۔ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا ہی ہر دو کے لیے عقل مندی کی بات ہوگی ۔ بہر حال اس ساری صورتحال کے باوجود دونوں ملکوں کو باہمی ملاقات کی راہ مسدود نہیں کرنی چاہئے ۔ اپنے طرز عمل کو نرم بناتے ہوئے مذاکرات کے لیے پہل کا موقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔۔