کیا بات کوئی اُس بتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو مجھ سے تو اشارات کہیں اور
عالمی طاقتوں کے دوہرے معیارات
دنیا بھر میں جو آج جو حالات پیش آ رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں تمام غیر اسلامی طاقتوں کا واحد مقصد و منشا اسلام کی بیخ کنی ہی رہ گیا ہے اور اس کیلئے دنیا بھر میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنانے کا عمل انتہائی حدوں تک پہونچ گیا ہے حالانکہ اس کا طریقہ کار ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے علیحدہ اختیار کیا ہوا ہے ۔ آج عالمی صورتحال ایسی سنگین ہوگئی ہے کہ دنیا بھرمیں مسلمانوں کیلئے کہیں بھی کوئی گوشہ عافیت نظر نہیں آتا ۔ عالمی برادری بظاہر اور زبانی اعتبار سے اسلام کو امن اور بہتری کا مذہب تسلیم کرتی ہے لیکن اس کے عملی اقدامات ایسے ہیں جو اسلام کو ختم کرنے کی کوششوں کے اشارے دیتے ہیں۔ دنیا میں آج دو معیارات نافذ ہوچکے ہیں ۔ ایک معیار اور پالیسی غیر مسلم دنیا کیلئے اور دوسری مسلم دنیا اور مسلمانوں کیلئے رہ گئی ہے ۔ عملی طور پر دنیا دو گروہوں میں بٹی ہوئی نظر آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمان ہیں انہیں ہر گوشہ کی جانب سے کسی نہ کسی انداز میں نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ عراق میں داعش کے خلاف کارروائیوں کا مغربی دنیا یہ کہتے ہوئے جواز پیش کر رہی ہے کہ داعش کی جانب سے بے قصور افراد کو قتل کیا جارہا ہے ۔ یہاں داعش یاس اس سے وابستہ افراد کی تائید و حمایت مقصود نہیں لیکن بتانا یہ ہے کہ جس طرح داعش کی کارروائیوں کو بہیمانہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف فضائی حملے کئے جارہے ہیں اسی طرح غزہ میں اسرائیل کے حملوں کو اور ان حملوں میں بے قصور معصوم بچوں کی ہلاکت کو الگ تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور اس کا جواز اسرائیل سے زیادہ خود مغربی دنیا پیش کرنے میں مصروف نظر آتی ہے ۔ افغانستان میں دہشت گردی کے نام پر طالبان کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو پاکستان کے قبائلی علاقوں کے گروپس کو نشانہ بنانے کیلئے بھی یہی جواز ڈھونڈ لیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے معصوم اور نہتے عوام کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں کو یہ ممالک حقوق انسانی کی نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ اسے اسرائیل کے حق مدافعت سے جوڑتے ہوئے اس کا جواز پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے دنیا بھر میں مسلمانوں کیلئے عملا عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے ۔
اس ناگفتہ بہ صورتحال میں خود مسلم ممالک کا طرز عمل بھی انتہائی افسوسناک کہا جاسکتا ہے ۔ فلسطین میں نہتے معصوم فلسطینی عوام کا اجتماعی قتل عام ہو رہا ہے بلکہ اسے نسل کشی کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا اس کے باوجود مسلم ممالک کی جانب سے اس کارروائی کو روکنے کیلئے کوئی حرکت نہیں کی جا رہی ہے ۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان موقع بہ موقع زبانی جمع خرچ ضرور کرتے ہیں لیکن دوسرے اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کے وحشتناک اور جارحانہ حملوں کو روکنے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور نہ زبانی بیان بازی کی ہی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ کچھ مسلم ممالک کی جانب سے غزہ میں ہونے والی تباہی کو روکنے کی بجائے تباہ حال فلسطینیوں کو اپنے مکانات کی تعمیر کیلئے رقم کی پیشکش کی جاتی ہے لیکن یہ ممالک اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے کہ آیا اس رقم سے وہ معصوم اور بے گناہ فلسطینی بھی زندہ واپس ہوجائیں گے جن کا خون اسرائیل نے ناحق بہایا ہے ؟ ۔ ایسا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے ۔ مغربی دنیا جہاں اپنے طور پر اسرائیل کی جارحیت کا جواز ڈھونڈنے میں مصروف ہے وہیں مسلم ممالک اس جارحیت سے خود کو بچانے کی کوششوںمیں ابھی سے جٹ گئے ہیں حالانکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جلد یا بدیر ان ممالک کو بھی اسرائیل اور امریکہ کی جارحیت کا سامنا کرنا ہی پڑیگا ۔ اس سے بچنے کی ان کے پاس فی الحال اگر کوئی صورت ہے تو وہ یہی ہے کہ وہ متحد ہوکرابھی سے اسرائیل کو روکنے کی کوشش کریں۔
دنیا بھر کے مسلم ممالک اگر ابھی سے اسرائیل کو روکنے کیلئے کچھ بھی نہیں کرتے ہیں تو پھر انہیں مستقبل میں کبھی نہ کبھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑیگا جس کی سامنا آج عراق کو ہے ۔ جس کا سامنا آج غزہ کے نہتے فلسطینی عوام کو ہے ۔ جس کا سامنا آج افغانستان کے عام شہریوں کو ہے ۔ افغانستان میں دہشت گردوںا ور تخریب کاروں کو نشانہ بنانے کے نام پر معصوم شہریوں کو ہلاک کیا جارہا ہے ۔ غزہ میں ہزاروں عام شہری موت کے گھاٹ اتار دئے گئے اور اگر عراق میں ایک امریکی صحافی کا قتل ہوتا ہے تو ساری دنیا اس پر واویلا مچانا شروع کردیتی ہے ۔ یہ طرز عمل مغرب کی دوہری پالیسی اور ڈوغلے معیارات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اس کے علاوہ اس صورتحال سے مسلم ممالک کو بھی سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اب بھی وقت ہے کہ وہ آپس میں متحد ہو کر اسرائیل کے خلاف عالمی رائے کو ہموار کرنے کی کوششوں کا آغاز کریں۔ اگر اس کام میں مزید تاخیر ہوتی ہے تو اس کے اثرات سے مسلم دنیا محفوظ نہیں رہ پائیگی ۔