عالمی طاقتوں کی ’’خفیہ جنگ ‘‘

ترکی کے بشمول تمام مسلم ممالک اس وقت عالمی طاقتوں کی ’’خفیہ جنگ‘‘ کا شکار ہیں۔ داعش یا دولت اسلامیہ کی آڑ میں مسلم ممالک کو نشانہ بنانے کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ القاعدہ، طالبان یا صدام حسین، معمر قذافی، حسنی مبارک جیسے قدآور مسلم حکمرانوں کو راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہونے والی طاقتیں اب ترکی اور دیگر عرب ممالک کا رُخ کررہی ہیں تو یہ حالات تشویشناک اور خطرناک مستقبل کا اِشارہ دیتے ہیں۔ ترکی کے شہر انقرہ میں دو ماہ کے اندر دوسری مرتبہ حملہ کیا گیا جس میں کم از کم 37 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ تقریباً 3 ہفتے قبل فوجی قافلہ پر بم حملہ کیا گیا تھا جس میں 28 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حکومت ترکی اور کردش ورکرس پارٹی کے درمیان دشمنی بڑھتی جارہی ہے۔ بیرونی طاقتوں نے اس دشمنی کا فائدہ اٹھانا بھی شروع کیا ہے۔ اگرچیکہ انقرہ دھماکہ کے بعد امریکہ، اقوام متحدہ، کینیڈا اور خلیجی ممالک نے مذمت کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں بحران کو ہوا دینے والوں میں وہ ملک شامل ہیں جو اس وقت امن و امان کے حق میں سب سے زیادہ آواز بلند کررہے ہیں۔

دہشت گردی اور مسلم دنیا میں پیدا کیا جانے والا بحران ایک ایسا خطرناک کھیل ہے جس کے نتائج بھیانک برآمد ہوں گے۔ دہشت گردی نے مسلم معاشروں کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں۔ مسلم دنیا نے اپنی پوری طاقت جھونک کر اور وسائل کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کا مقابلہ شروع کیا ہے۔ اس میں کامیابی ملنا مشکل ہے کیوں کہ یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلم دنیا نے بین الاقوامی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جب ایک رائے قائم نہ ہوسکے تو پھر اس خطرے سے نمٹنے میں قطعی کامیاب نہیں ملے گی۔ ایک اسلامی ملک کے مفتی اعظم نے داعش کو ’’اسرائیلی فوج‘‘ یا جاسوسی ایجنسی ’موساد‘ کا ’’خفیہ ادارہ‘‘ قرار دیا ہے۔ داعش یا دولت اسلامیہ کے کارکنوں کی جانب سے جو حرکتیں ہورہی ہیں ۔ اس سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہونچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کی سرپرستی کرنے والی مغربی طاقتیں، داعش کے خاتمہ کے نام پر مسلم دنیا کو نشانہ بنارہے ہیں۔ مسلم دنیا کو گزشتہ دو عشروں سے افراتفری، خونریزی اور انتشار کے ماحول میں ڈھکیل دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے صدام حسین کا نام مغربی دنیا کی فوجی طاقت کے لئے کانٹا بنا تھا۔ اس کے بعد طالبان، بوکوحرم اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے نام نمودار ہونے لگے۔ اب عراق، شام میں داعش یا دولت اسلامیہ (آئی ایس) ایک بڑا خطرہ بن کر شام میں خونریزی کی روز بروز نئی داستانیں لکھ رہے ہیں۔

داعش کے خلاف روس نے فوجی طاقت کا استعمال کرنے اور شام کو تقریباً کھنڈر بنا دینے کے بعد اب روس نے اپنی فوج کے تخلیہ کا اعلان کیا ہے۔ مسلم دنیا جو اس بات کا احساس ہی نہیں رکھتی کہ وہ عالمی طاقتوں کی ’’خفیہ جنگ‘‘ کا سامنا کررہے ہیں۔ شام میں ایک طرف روس کی بمباری اور دوسری طرف سرکاری افواج اور بشارالاسد حکومت کے باغیوں کے ساتھ تصادم سے ہونے والی تباہی نے اس ملک کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے۔ شام کی تباہی کے لئے کون ذمہ دار ہے، اس کا اگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات فوری سمجھ میں آئے گی کہ مسلم دنیا واقعی عالمی طاقتوں کی ’’خفیہ جنگ‘‘ کا شکار ہے اور یہی مغربی طاقتیں، مسلم دُنیا کے فروعی اختلافات کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کررہی ہیں۔ جب مغربی دنیا یا یوروپی ممالک سے کسی ایک ملک میں دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو عالمی طاقتوں کا رویہ اور ردعمل مختلف ہوتا ہے اور جب دہشت گرد کسی مسلم ملک کو نشانہ بناتے ہیں تو یہاں دہشت گردی سے نمٹنے کا دوہرا پن واضح ہوجاتا ہے۔ افسوس ہے کہ مسلم دنیا کے سربراہوں کو مغربی یا عالمی طاقتوں کے اس دوہرے پن کا اِدراک نہیں ہورہا ہے۔ دراصل مسلم دنیا کو ایک منظم سازش کے تحت کمزور اور منقسم کردیا گیا ہے۔ مسلم دنیا کے سربراہوں کی کوتاہیوں اور تساہل کا نتیجہ ہے کہ آج مسلم دنیا کے باشندوں کو لہولہان و پریشان ہونا پڑرہا ہے۔ مسلم دنیا کی قیادت اپنے چھوٹے چھوٹے مقاصد کیلئے عالمی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا بن رہی ہے تو تباہی کا اندازہ کرلینا آسان ہوجاتا ہے۔