کعبۃ اللہ کی تعمیر کا مرحلہ جب تکمیل پاگیا تو اللہ سبحانہ نے سیدنا ابراہیم خلیل علیہ السلام کوہدایت فرمائی کہ میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں اورمیرے گھرکوطواف اور وہاں قیام اورروکوع وسجدہ کرنے والوں کیلئے اسے پاک وصاف رکھیںاور لوگوں میں حج کا اعلان کر دیںکہ تمہارے پاس پیدل چلنے والے اوردبلے پتلے اونٹوں پرسواربھی دوردرازکے تمام راستوں سے آئیں گے (الحج:۲۶،۲۷) اللہ سبحانہ کی قدرت کا اعجازمکہ کے پہاڑکی چوٹی سے بلندہونے والی یہ کمزور نحیف صداسارے عالم کے گوشہ گوشہ تک پہنچ گئی اورسارے وہ انسان جن کیلئے بیت اللہ شریف کا حج مقدرکردیاگیا ان تک اس صدائے دل نوازکے پہنچنے کا سامان ہوگیا خواہ وہ اس عالم میں رہے ہوں یا عالم ارواح میں ،خوش نصیب ہیں وہ عازمین جن کیلئے اللہ سبحانہ نے یہ نعمت مقدرفرمائی ہے،اس نعمت کا حق شکریہ ہے کہ اللہ سبحانہ کی رضا اوراس کی خوشنودی کیلئے یہ سفراختیارکیا جائے ،مناسک حج ،مقامات حج ،فرائض وواجبات حج اور اسکے آداب وسنن کی تفصیل کے ساتھ شعائر مقدسہ اورحرمین پاک کے آداب واحترام جاننے اوران کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے حج کا فریضہ اداکیاجائے اور مدینہ پاک اورمقامات مقدسہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا جائے۔ سفرحج وزیارت جتنا مبارک ہے اسکے تقاضے بھی اتنے ہی زیادہ اہم اورقابل لحاظ ہیں،حج مبروروزیارت مقبول کی نعمت میسرآجائے تو اس سے بڑھ کر کوئی انعام نہیں،لیکن اس سفرمیں کوئی کوتاہی ہوتوگرفت کا بھی زیادہ خطرہ ہے،اس لئے اس مبارک سفرکے آغاز سے قبل چندامور کو ضرورپیش نظررکھا جائے :۔٭ اخلاص نیت : تمام اسلامی اعمال کی طرح حج بیت اللہ شریف اداکرتے ہوئے رضاء الہی مقصود ومطلوب ہو،قرآن پاک میں ارشادہے’’حج وعمرہ کوخالص اللہ کی رضاء کے لئے پوراکرو‘‘حدیث پاک میںہے’’اعمال کا ثواب نیت پرموقوف ہے، اورہر انسان کے ساتھ اسکی نیت کے موافق معاملہ ہوتاہے‘‘اس لئے اس مبارک سفرمیں ہماراہرقدم جب بھی اٹھے خوشنودئی رب کیلئے اُٹھے۔نیت کوخالص کرکے رب کی رضاء کوہرآن پیش نظررکھا جائے،دل پرہمیشہ نگاہ رہے ،ریا ء وسمعہ ،تکبروبڑائی ،شہرت وجاہ وغیرہ جیسے ناپسندیدہ قلبی کیفیات دل میں پرورش پاجائیں اوراعمال سے ان کا اظہاربھی ہونے لگے توسخت خطرہ اس بات کا ہے کہ سب کیا کرایا اکارت نہ ہوجائے اورہمیشہ حج مبرورکی دعاء مانگی جائے۔ ٭ توبہ واعتراف : حج بیت اللہ شریف صاحب استطاعت پروہ بھی زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، حج مبرورسے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ،اورحدیث پاک میں اسکی جزاء جنت بتائی گئی ہے،اس لئے اس سفرکے آغازسے قبل سچے دل سے توبہ واستغفارکا ضرور اہتمام کیا جائے ،پچھلی زندگی کا محاسبہ ،اپنے اعمال کا موازنہ، اپنی کوتاہیوں کے اعتراف کوآسان بنادیتاہے،اسکو صوفیاء کی اصلاح میں ’’مراقبہ‘‘کہاجاتاہے۔مراقبہ ذکراذکارکیلئے بھی ہوتاہے اور اعمال کے جائزہ کیلئے بھی،اعتراف واقراربڑی نعمت ہے،انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں پھربھی حق بندگی کے تکمیل کیلئے ان کے اقرارواعتراف کے کلمات قرآن پاک میں محفوظ ہیں ،اللہ کے محبوب بندوں نے ہمیشہ اقرارواعتراف کوحرزجاں بنائے رکھاہے۔اس میں دراصل گنہگاران امت کیلئے عظیم پیغام ہے۔ظاہری ناپاکی خواہ وہ حقیقی ہو کہ حکمی وضو اورغسل سے دورہوجاتی ہے لیکن گناہوں کی ناپاکی وپلیدی پاک کرنے کا راستہ صرف سچے دل سے توبہ واستغفارہی ہے، استغفارکے کلمات میں ’’سید الاستغفار‘‘ کوبڑی اہمیت حاصل ہے ۔اور اسکا جزء اعظم عاجزی وبندگی کا اظہاراللہ شانہ کی نعمتوں اور اپنے قصوروں وکوتاہیوں کا اقرارواعتراف ہی ہے،اس لئے اسکے کلمات کو معنی ومفہوم کے استحضارکے ساتھ صبح وشام کے علاوہ دن رات وردزباں رکھا جائے،استغفارسے حقوق اللہ کی ادائی میں جوکوتاہیاں ہوئی ہیں اسکی معافی ہوسکتی ہے لیکن حقوق العبادسے چھٹکارہ ممکن نہیں اس لئے جوکوتاہیاں بندوں کے حقوق سے متعلق ہوئی ہیں ان کی معافی کاراستہ یہ ہے کہ اگروہ موجود ہوں ان کے حقوق اداکردئیے جائیں ،اگراداکرنے کا موقف نہ ہوتوان سے معافی تلافی کرلی جائے ،اگردنیا سے رخصت ہوچکے ہوں تو ان کے حق میں اللہ سبحانہ سے دعاء کی جائے،سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے دعاء سکھائی ہے۔ اَللّٰہُمَّ اِنیِِّ اتَّخَذْتُ عِنْدَکَ عَہْدًا لَنْ تُخْلِفَنِیْہِ،فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ،فَاُّیُّ الْمُؤْمِنِیِْنَ اٰذَیْتُہ، شَتَمْتُہ، جَلَدْتُّہُ،ْ لَعَنْتُہُ، فَاجْعَلْہَا لَہُ صَلٰوۃً وَزَکٰوۃً وَقُرْبَۃً َتُقَرِّبُہُ بِہَا اِلَیْکَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مسلم:۲؍۳۲۳’’اے اللہ میں تجھ سے عہد لیتا ہوں جس کی ہرگزتو خلاف ورزی نہیں کرے گا، میں تو ایک بشرہوں، چنانچہ میں نے جس کسی مومن کو تکلیف پہنچائی ہو، برا بھلا کہا ہو،مارپیٹ کی ہو، لعن طعن کی ہو،تویہ (سب)اس کے لئے رحمت،پاکیزگی اورقرب کا ایسا ذریعہ بنا جس سے تو اسے روزقیامت اپنا قرب نصیب فرمادے ‘‘ ٭مال طیب کا اہتمام :سفرحج کی قبولیت میں مال طیب کا اہتمام بہت اہم ہے،کیونکہ مال حرام سے کی جانے والی عبادت اللہ سبحانہ کے ہاں مقبول نہیں،حدیث پاک میں واردہے ’’اللہ سبحانہ پاک ہے اوروہ صرف پاک وطیب شیٔ کوقبول فرماتاہے‘‘مسلم :۲۳۴۵،ایک اورحدیث پاک میں واردہے’’جب کوئی بندہ پاک وطیب مال لیکر حج کے لئے نکلتاہے یہاں تک کہ وہ تلبیہ کہتے ہوئے اپنا قدم ابھی رکاب (سواری)پررکھنے بھی نہیں پاتا کہ آسمان سے نداء دینے والا ندا دیتاہے :تیری حاضری قبول کرلی گئی،تیرا زادسفرحلال ہے،تیری سواری حلال ہے،تیرا حج ۔حج مقبول اورگناہوں سے پاک ہے‘‘اورجب کوئی بندہ حرام مال کے ساتھ سفرکا آغازکرتاہے اورسواری پر سوارہوکر ’’لبیک اللہم لبیک‘‘ کی پئے درپئے صدائیں بلندکرتاہے لیکن آسمان سے اس کے لئے نداء آتی ہے ’’لا لبیک ولا سعدیک‘‘ کہ نہ تو تیری حاضری قبول ہے نہ تو تیر ے لئے کوئی سعادت ونیک بختی ہے کیونکہ تیرا زاد سفرحرام ،تیرا مال حرام ہے اس لئے تیراحج مقبول نہیں‘‘ سود، جوا، قمار، رشوت اوربعض افراد سے کسی کے مال وجائیدادپرناجائزقبضہ وغیرہ کا چلن معاشرہ میں عام ہے ۔اس کی قباحت وشناعت کا اندازہ توآنکھ بندہونے (موت)کے بعدبھی ہوگا لیکن زندگی میں بھی اس کے وبال سے محفوظ رہنا ممکن نہیں،اس طرح کا مال کسی کے ہاں ہوتوصاحب حق تک اس کو پہنچادینا اورجوکچھ ظلم ہواہے اس کی معافی چاہ لینا اوراللہ کی جناب میں توبہ واستغفارکرکے حج کا سفرکرنا چاہیئے اوراس جیسے حرام مال کوسفرحج میں استعمال کیا جائے توفریضہ حج اداہوسکتاہے لیکن اسکے ثمرات وبرکات بھی حاصل ہوجائیں اسکا امکان بہت کم ہے۔ ٭فرائض وواجبات کی ادائیگی کا اہتمام :زندگی گزارنے کاخوف الہی وخوف آخرت سے عاری طوروطریق ،دنیاکمانے اورسامان عیش وعشرت جمع کرنے میں اس قدرمشغول کردیتاہے کہ فرائض وواجبات کی ادائیگی میں بڑی غفلت وکوتاہی سرزد ہونے لگتی ہے،سنجیدگی کے ساتھ اس پرتوجہ ضروری ہے۔نمازوں کی پابندی،ذکرواذکار،درودپاک کے بکثرت ورد کا اہتمام باطن کی طہارت وپاکیزگی میں بڑمؤثرہے اورحج کے سفرمیں تومزیداسکی اہمیت ہے۔ ٭سفرحج میں غیرمحرم کے ساتھ اختلاط سے اجتناب :دوران سفر اوررہائش گاہوں میں اختلا ط مردوزن کواہمیت ہی نہیں دی جاتی، حرمین پاک ومقامات حج کی گزرگاہوں، مقامات حج، منی، عرفات،مذدلفہ وغیرہ میں ہر جگہ اکثرغیرمحارم سے آمنا سامنا ہوتاہے اس لئے خاص طورپررہائش گاہوں منی،عرفات وغیرہ کے خیموں میں مردوخواتین کے درمیان پردہ ڈال لیا جائے اوراختلاط سے سخت اجتناب کیا جائے،اس عظیم عبادت کی ادائی میں اپنی نظروں کی حفاظت ،بے پردگی واختلاط، بلاضرورت مردوخواتین کے درمیان بات چیت وغیرہ سے سخت احتیاط برتی جائے ۔٭ حرمین شریفین کے قیام کے دوران زیادہ سے زیادہ وقت عبادات کے اہتمام کے ساتھ مسجدحرام ومسجدنبوی میں گزارنے کااہتمام کیا جائے،حرم مکہ میں بکثرت طواف ،نمازوں ،تلاوت قرآن،تسبیحات وتحمیدات وغیرہ کا اہتمام رکھا جائے،حرم مدینہ میں بھی ان تمام اہتمامات ساتھ دوردپاک کا بکثرت التزام رکھا جائے اور وہاں (حرمین پاک)کے انواروبرکات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔بازاروں میں زیادہ وقت گزارنا اوربازاروں کورونق بخشنا نہایت قابل افسوس ہے ،مادی سازوسامان جمع کرنے سے زیادہ ایمانی وروحانی متاع جمع کرنے کی فکرکرنی چاہیئے،اس سفر کی روحانی متاع تقوی اورتقوی کے تقاضوں کا اہتمام ہے ،مادی اسباب عیش وعشرت کی محبت اوراسکی تحصیل میں کھوئے رہتا اس سفر کے حقوق وآداب کے مغائرہے ۔ ٭ مشاعر۔ومقامات مقدسہ کی حرمت وتعظیم کے ساتھ حرمین پاک میں اقامت پذیرتمام اصحاب کے احترام کوضرورملحوظ خاطررکھا جائے٭ اس مبارک سفرمیں نفس اورزبان دونوں کوقابومیں رکھا جائے ،ان دونوں کی حفاظت میں قبولیت حج وزیارت کا رازمضمر ہے، اس میں کوتاہی کی وجہ حرمین معظمین کے احترام وتقدیس میں کوتاہی ،پھران مبارک مقامات پرزبان کی بداحتیاطی اورنفس کی غیرپاکیزگی حج کے برکات وثمرات سے محرومی کے ساتھ نامہ اعمال کی سیاہی کا باعث بن سکتی ہے،حجاج اکرام کوہرآن اس دعاء کااہتمام کرنا چاہیئے’’اے ہمارے پروردگارہمیں ہدایت سے بہرومندفرمانے کے بعدہمارے قلوب کو(کج) ٹیڑھے مت فرما ،اورہمیں اپنے پاس سے رحمت عطافرما،یقینا توہی بہت عطافرمانے والا ہے‘‘آل عمران:۸۔اللہ سبحانہ سے دعاء ہے کہ وہ دوران سفرحج وزیارت اورسفرسے واپس لوٹنے کے بعدہرحال میں بندگی کے تقاضوں کوبجالاتے ہوئے زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے ،حج کوحج مبروراورزیارت کوزیارت مقبول بنائے۔ ہربندہ مومن کوحج وزیارت کی نعمت اوراسکی قبولیت نصیب فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔وصلی اللہ تعالی وسلم علی سیدالمرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العالمین۔