٭ کیاک کا سان گراؤنڈ پارک پر پوپ فرانسس کا خطاب
٭ سوچی اور دیگر حکام سے ملک کی تمام اقلیتوں کو ساتھ
لے کر چلنے کی اپیل
٭ مہاتما گاندھی کا مشہور قول بھی دہرایا
ینگون۔ 29 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) پوپ فرانسس نے آج اپنے ایک اجتماعی خطاب کے دوران میانمار میں ظلم و جبر کا شکار افراد سے صبر و تحمل کرنے کی خواہش کی اور انہیں نصیحت کی کہ وہ انتقام کے جذبہ کو اپنے دل و دماغ سے نکال دیں کیونکہ انتقام کا جذبہ انسان کے زخموں کو ہمیشہ ہرا رکھتا ہے۔ ان کے مندمل ہونے کے امکانات موہوم ہوجاتے ہیں جبکہ صلہ رحمی اور عفو و درگذر ہی دو ایسی کیفیات ہیں جن کو اپناکر آپ اپنے رب سے قریب تر ہوجاتے ہیں۔ بودھ مت کے پیرو کاروں کی اکثریت والے اس ملک میں پوپ فرانسس کے پہلے اجتماع میں لوگوں کی کثیر تعداد دیکھی گئی جو ایک اندازے کے مطابق 1,50,000 سے زائد تھی جہاں لوگ جوق در جوق کیاک کاسان گراؤنڈ پارک میں موجود تھے۔ اس اجتماع میں شرکت کے لئے کیتھولک شہریوں کو اپنے مقامی چرچس سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑا۔ کئی لوگوں نے ایسی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں جن پر پوپ فرانسس کی تصویر تھی۔ اجتماع سے خطاب سے قبل پوپ فرانسس نے پورے گراؤنڈ کا اپنی پوپ موبائیل خصوصی کار سے چکر لگایا اور وہاں موجود لاکھوں افراد کی جانب ہاتھ لہرایا۔ اس وقت وہاں مقامی حکومت کے عہدیدار اور آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی (NLD) کے سینئر ارکان کے علاوہ کرسچین کچن مائناریٹی کے ارکان بھی اپنے روایتی لباس پہن کر شریک تھے۔ پوپ فرانسس نے کہا کہ میانمار آنے کا مقصد یہاں آباد کیتھولک کمیونٹی سے ملاقات کرنا ہے جن کی تعداد 460,000 ہے یا پھر بہ الفاظ دیگر 52 ملین کی آبادی والے اس ملک میں عیسائیوں کا تناسب صرف 1% ہے حالانکہ پوپ فرانسس کے دورہ پر یوں تو روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کی فوج کے ذریعہ کئے جانے والے ظلم و جبر کے سائے منڈلاتے رہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے اس کارروائی کو روہنگیا مسلمانوں کے نسلی صفائے سے تعبیر کیا تھا۔
پوپ فرانسس نے کل اپنے ایک خطاب کے دوران سوچی اور حکومت کے دیگر حکام سے واضح طور پر کہا تھا کہ میانمار اس وقت خوشحال ہوسکتا ہے جب یہاں آباد ہر مذہب کے لوگوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ ہر ایک کو شامل کیا جائے۔ کسی کو یکا و تنہا نہ کیا جائے تاہم پوپ فرانسس نے اس موقع پر ’’روہنگیا‘‘ لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا جبکہ آج انہوں نے میانمار کی اقلیتوں کو لوٹے جانے، انہیں بے گھر کئے جانے اور ان کی خواتین کی عصمت ریزی اور دیگر ظلم و جبر کا تذکرہ کیا جو دراصل میانمار کی فوج اور ملک کی نسلی اقلیت کے درمیان عرصہ دراز سے جاری رہنے والی جھڑپیں ہیں جن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ یاد رہے کہ میانمار میں حال ہی میں 50 سالہ طویل فوجی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے، تاہم اقلیتیں بشمول ’’کچنس‘‘ آج بھی متعدد ناانصافیوں اور امتیازی سلوک بشمول تشدد کا سامنا کررہی ہیں۔ فرانسس نے اپنا خطاب اطالوی زبان میں جاری رکھا ، جس کا برمیز زبان میں ترجمہ کیا جارہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ میانمار میں آج بے شمار لوگ زخم خوردہ ہیں۔ ایسے زخم جو نظر بھی آتے ہیں اور اوجھل بھی ہیں، تاہم اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو پھر صلہ رحمی اور عفو و درگذر کی گنجائش کہاں باقی رہے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ظالموں کو معاف کردیا جائے اور معاف کرنے والا بھی کوئی معمولی آدمی نہیں ہوتا۔ انہوں نے اس موقع پر ہندوستان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کا ایک قول دہرایا کہ ’’اگر آنکھ کے بدلے آنکھ کا سلسلہ جاری رہا تو ساری دنیا اندھی ہوجائے گی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انتقام لینا یسوع مسیح کا طریقہ کار نہیں ہوسکتا۔ پوپ فرانسس کے خطاب کے لئے ایک خصوصی شہ نشین بدھسٹ طرز پر تیار کیا گیا تھا اور سکیورٹی کے بہترین انتظامات کئے گئے تھے۔ میانمار کی بدھسٹ قیادت سے ملاقات بھی پوپ فرانسس کے پروگرام میں شامل ہے۔ بعدازاں وہ کیتھولک بشاپس سے بھی ملاقات کریں گے اور اپنے جنوب ایشیائی دورہ کے دوسرے مرحلے میں بنگلہ دیش کے لئے روانہ ہوجائیں گے۔