طہارت کے آداب

مولاناعبد العلیم کوثر
بول وبراز یعنی پیشاب پاخانہ انسانی ضرورت ہے، اس ضرورت کی تکمیل وقت پر نہ ہو تو انسان بے چین ہو جاتا ہے، اسی لئے اس کو اجابت کہتے ہیں۔ مذہب اسلام نے اس ضرورت کو اتنا محسوس کیا کہ نماز جیسی اہم عبادت کو بھی مؤخر کرنے کا حکم دیا۔ پیشاب اور پاخانہ سے فراغت کا نام اسلام نے طہارت رکھا اور یہ بات قابل فخر ہے کہ دنیا کے کسی اور مذہب نے انسانی ضرورت پر اتنی توجہ نہیں دی، جتنی کہ اسلام نے دی ہے۔ ایک مہذب معاشرہ کو طہارت کے سلسلے میں اسلام نے جو آداب سکھلائے ہیں، وہ اسلام کی حقانیت کے لئے کافی ہے۔ ہم جانور نہیں ہیں کہ بول و براز کو اپنی مرضی سے جیسا چاہیں کریں۔ قرآن و حدیث اور آثار کی روشنی میں جو ہدایات ملی ہیں وہ اس طرح ہیں۔

آدمی بول و براز کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرے، جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔ قبلہ کی طرف نہ رُخ کرے نہ پشت، حتی کہ چھوٹے بچوں کو بھی اس طرح نہ بٹھائے۔ سر پر ٹوپی، عمامہ یا کچھ اور اوڑھے ہوئے ہو۔کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرے اور طہارت خانہ میں جانے سے پہلے یہ دعا پڑھے: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثْ۔ بایاں پیر پہلے داخل کرے، کسی سے بات نہ کرے اور نہ کوئی ذکر کرے۔ جتنی جلد ہوسکے وہاں سے نکلنے کی کوشش کرے، قدمچوں پر بائیں پہلو پر زور دے کر بیٹھے، بلکہ بائیں پیر اور پیٹ کے درمیان اپنا بایاں ہاتھ رکھ لے۔ کسی درخت کے نیچے فارغ نہ ہو، کیونکہ وہ جگہ مسافروں یا کسی جانورں کی آرامگاہ ہو سکتی ہے۔ کسی جانور کے بل اور گھر میں فارغ نہ ہو۔ ایک دم اندھیرے میں نہ کرے اور نرم جگہ کا انتخاب کرے، تاکہ چھینٹیں نہ اچھلیں۔ ہوا کے مخالف رُخ پر نہ ہو، ٹھہرے ہوئے پانی میں نہ کرے، ڈھلان والی جگہ پر نہ کرے کہ پیشاب ڈھلک کر نیچے پہنچ جائے اور جب قدمچوں پر بیٹھ جائے تو پیشاب میں اتنی احتیاط کرے کہ کھڈی کے باہر پیشاب نہ گرے۔ پھر جب حاجت سے فارغ ہو جائیں تو بدن ڈھیلا کرکے پانی سے دھو لیں۔
واضح ہو کہ استنجاء صرف بائیں ہاتھ سے کریں۔ مٹی کے ڈھیلوں کا رواج رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے، تاہم علماء نے ٹشو پیپر وغیرہ کی بھی اجازت دی ہے۔ کھڈی میںاچھی طرح پانی بہائیں، تاکہ اندرونی حصہ میں بھی کوئی گندگی نظر نہ آئے۔ جب اچھی طرح فارغ ہوجائیں تو ستر درست کرکے بیت الخلاء سے باہر آئیں اور یہ دعا پڑھیں: غُفْرَانَکَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْہَبَ عَنِّی الْاَذیٰ وَعَافَانِیْ۔

اس سلسلہ میں مزید یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بے حیائی اللہ تعالی کوبہت ہی نا پسند ہے، اس لئے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے۔ شرم و حیا کا تقاضہ ہے کہ مدارس میں جس طرح حاجت کے لئے اشاراتی زبان استعمال کی جاتی ہے اور جس کا رواج آج تک ہے، اسی طر ح کا ماحول گھر میں بھی بنائیں۔ ایسا کوئی لفظ استعمال نہ کریں، جس سے بے حیائی کا اظہار ہو۔ اگر ریح خارج ہونے کا امکان ہو تو مجلس سے اُٹھ جائیں۔کسی مجلس میں کسی کی ریح خارج ہو جائے تو کسی پر بے جا شک نہ کریں اور نہ کسی کا نام ظاہر کریں۔ بہتر ہے کہ مجلس کے سارے ہی لوگ اُٹھ کر وضو کرلیں۔ ریح کا خارج کرنا اور اس کو موضوع بحث بنانا قوم لوط کی کی نشا نی ہے، جو سخت ترین عذاب کے مستحق بنے۔ اسی طرح ڈکار بھی ایک انسانی ضرورت ہے، اس سلسلے میں بھی لوگوں سے بڑی بے احتیاطی ہو تی ہے۔ بھری مجلس میں بے تکلف کریہہ آواز سے ڈکارنا تہذیب کے خلاف ہے، پھر منہ سے نکلنے والی ہوا کو سامنے والے شخص پرچھوڑنا اور بھی بدترین بات ہے۔
ؓ ؓؓؓحافظ سید شاہ مدثر حسینی
حضرت سید شاہ خاموش رحمۃ اﷲ علیہ
ہر امت میں صالحین گزرے ہیں ۔لیکن امت محمدی کے صالحین کی بات اور ہے وہ دیگر امت کے پاک بازوں سے بلند تر اور ممتاز ہیں وہ صالحین جنہوں نے شریعت کے ساتھ ساتھ اللہ کی معرفت میں لگے رہے انہیں عوام نے صوفیہ کے لقب سے یاد کیا ۔ انہیں میں سے ایک شہر حیدرآباد کی صوفی بزرگ شخصیت حضرت سید شاہ معین الدین حسینی المعروف شاہ خاموش رحمۃ اﷲ علیہ ہے۔

حضرت کی ولادت باسعادت ۱۲۴۰ ؁ھ شہر محمد آباد بیدر شریف میں ہوئی۔ حضرت اشارہ کے عادی ہو گئے تھے آخری عمر تک بھی کم بات فرماتے تھے۔ حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہؒ کے خرق عادات وکرامات ہزارہا مشہور ہیں لیکن حضرت نے ان کے اظہار سے ناخوش ہوا کرتے تھے۔
وفات : پیر کے دن ۴ ذیقعدۃالحرام ۲۸۸ ۱ ؁ ھ جبکہ حضرت قبلہ ؒ نے خانقاہ میں بحالت نماز روح مبارک جسد سے پرواز کر گئی۔مکہ مسجد میں لاکھوں کے مجموعے نے آپؒ کے نمازجنازہ میں شرکت کی۔
حضرت شاہ خاموش صاحب قبلہ ؒ کی بھی ایک ایسی بسا بزرگ اور قابل احترام شخصیت ہیں جنہوں نے دین وایمان کے استحکام اور خانقا ہی نظام کے فروغ میں اہم حصہ ادا کیا جہاں آج بھی آپؒ کے مزار مبارک پر پرُرونق افروز روحانی منظر اور قلبی سکون میسر ہوتا ہے لوگ جوق در جوق آتے اور اپنی مرادیں پاتے ہیں ۔آپ کے کلام میں ایک روحانی اور تصوف کے تعلیمات کا بھی ذکر ملتا ہے۔