طوفان اورزلزلے۔نشان عبرت ،پیغام دعوت

اللہ سبحانہ اس کائنات میں انسانوں کی عبرت ونصیحت کیلئے معمول کے نظام بر خلاف ایسے احوال پیدافرمادیتے ہیں جس سے کرئہ ارض کے معمول کا نظام درہم برہم ہوجاتاہے، حالیہ عرصہ میں میکسیکومیں زلزلہ کے بعد سمندری طوفان نے ہلچل مچادی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق 8.1شدت کے زلزلہ کی وجہ ہلاک ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی،اس زلزلہ کی وجہ کئی عمارتیں زمین دوزہوگئیں ،میکسیکوکی تاریخ میں اس کو شدید ترین زلزلوں میں سے ایک مانا گیاہے،دوسری طرف سمندری طوفان جس کو ’’کاٹیا‘‘کا نام دیا گیا ہے جو میکسیکو کے ساحلی علاقوں سے ٹکرا گیا ہے۔اس طوفان کے ساتھ ہونے والی بارش نے بھی مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں،ان حوادثات کی وجہ کئی ایک افراد کے ملبے تلے دبے ہوئے ہونے کی اطلاع ہے،طاقتورسمندری طوفان ’’ارما‘‘کے بارے میں کہا جارہاہے کہ وہ امریکی ریاست ’’فلوریڈا‘‘کی جانب بڑھ رہا ہے ،امریکی ریاست کے شمالی حصہ سے وہ ٹکراگیا ہے ۔ اس طوفان نے ’’کریبیئن‘‘جزائر میں تباہی مچانے کے بعد یہ طوفان ارما تیزوتندہوائوں اوربارش کی صورت میں ’’کیوبا‘‘ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے،پھر اسکے چند گھنٹے بعداس میں مزید تیزی آئی اوروہ ’’کیمیگوے آرکیپیلیگو‘‘ تک پہونچ گیا ہے ۔ماہرین کا ماننا ہے کہ کئی دہائیوں بعداتنا بڑا طوفان کیوبا کی تباہی کا باعث بنا ہے،طوفان سے متعلق اطلاع دینے والے قومی مرکز کے مطابق دوسوستاون کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتارسے ہوائیں چل رہی تھیں۔ فلوریڈاجس کو امریکی عوام جنت تصورکرتے تھے طوفان ارما نے اس کو تہس نہس کر دیا ہے ،ماہرین طبقات الارض نے زلزلے اورطوفان سے ہونے والی تباہی کوانسانوں کی ماحولیات پر اپنی ناقص پالیسیوں کو لاگو کرنے کا نتیجہ قراردیا ہے، گزشتہ ماہ ’’ٹیکساس‘‘میں طوفان ہاروی نے تباہی مچائی تھی ،ٹیکساس کے کئی شہروں خاص کر ہوسٹن میں طوفان ہاروی کی تباہی کے بعد وہاں کے حالات میں کوئی خاصی بہتری نہیں آسکی ہے۔

طوفانی ہوائوں کی رفتاردوسونوکیلومیٹرفی گھنٹہ بتائی گئی ہے۔اس طوفان کی وجہ عمارتوں کے منہدم ہونے کے ساتھ آئیل ریفائنریزبھی متاثرہوئی ہیں،چالیس ارب ڈالرکے نقصانات کا تخمینہ ہے،الغرض زلزلے اورطاقتورطوفان کے نتیجہ میں انسانی جانوں اوراملاک کے بڑے نقصان کے ساتھ اورکئی مسائل سے دوچارہونا پڑا۔کرئہ ارض پر زلزلے اورطوفان سے جو تباہی مچتی ہے وہ انسان کی دسترس سے باہرہے،یہ قدرتی آفات یوں ہی انسانی سماج کو اپنے گھیرے میں نہیں لیتے بلکہ اسکے پیچھے وہ حقائق کار فرما ہوتے ہیں جن کا تعلق انسانوں کی ملحدانہ،فاسقانہ ،احکام الہی سے منحرفانہ روش سے ہے۔اس روش میں جس قدربے باکی اورزیادتی ہوگی اللہ سبحانہ کی گرفت بھی ان اشکال (زلزلہ ،طوفان وغیرہ)کے ساتھ اورزیادہ ہوگی،تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کی رائے یہ ہے کہ کرئہ ارض پر ہونے والے زلزلوں سے اب تک آٹھ کروڑسے زائد انسان ہلاک ہوچکے ہیں۔مالی نقصانات کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا،قدیم اقوام مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندوں کو اس کا ذمہ دارقراردیتے تھے،جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل القامت چھپکلی زمین کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہے ،کچھ امریکیوں کا بھی ایساہی عقیدہ تھا کہ زمین کچھوے کی پیٹھ پر ہے ان کی حرکت زلزلوں کا باعث بنتی ہے ،ایسا ہی کچھ عقیدہ بعض ہندومذاہب کے ماننے والوں کا ہے کہ زمین گائے کی سینگوں پر قائم ہے جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔نصف صدی قبل سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ زمین کی حرارت ختم ہوتے ہوئے بتدریج ٹھنڈی ہورہی ہے اس عمل کے نتیجہ میں اسکا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتاہے جس سے زلزلے آتے ہیں ،کچھ اورماہرین کا تجزیہ یہ ہے کہ زمین کے اندورونی حصہ میں آگ کا لاوہ دہک رہاہے اسکی بے پناہ حرارت زمین کو غبارہ کی طرح پھیلا دیتی ہے اور وہ زلزلے کا باعث بنتی ہے۔قدرت کے بنائے ہوئے نظام کی تہہ تک انسانوں کی رسائی کہاں ممکن،اس لئے آئے دن نظریات تبدیل ہوتے رہتے ہیں،موجودہ تحقیق میں Magmaزمین کی بالائی پرت اندورونی طورپر مختلف پلیٹوں میں منقسم ہے جب زمین کے اندورونی کرہ میں موجودپگھلے ہوئے مادے جسے جیولوجی ’’میگما‘‘کہتے ہیں میں بجلی پیداہوتی ہے ،تو یہ پلیٹیں اسکے جھٹکے سے متحرک ہوجاتی ہیں اس طرح ان پلیٹوں کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتاہے ،ان پلیٹوں کے درمیان پیداہونے والے ارتعاش سے زلزلے آتے ہیں۔زلزلوں سے متعلق قدیم باطل مذہبی ظنی نظریات ہوں یا سائنس کے ہر آئے دن بدلتی تحقیقات ہوں جس کو جیولوجی سے تعبیر کیا جاتاہے ،ظاہر ہے ہر کام میں قدرت کی کارفرمائی ہے۔ سائنسی تحقیقات کائنا ت میں چھپے کچھ رازوں تک رسائی حاصل کرسکتی ہے،

اس کے مادی اسباب وعلل کی نشاندہی کرسکتی جوکبھی درست اورکبھی غلط ثابت ہوسکتے ہیںلیکن ان کی روک تھام کے موثرذرائع ان کی دسترس سے باہر ہیں۔اسلام جو دین فطرت ہے وہ اس سے پردہ ہٹاتاہے کہ زلزلہ اورطوفان وغیرہ کس کے حکم سے آتے ہیں اوران سے تحفظ کی کیا صورتیں ہوسکتی ہیں اسکی بھی وہ نشاندہی کرتاہے۔یقینا زلزلے ہوں یا طوفان حوادث بادوباراں اس کائنات میں اللہ سبحانہ کی ایک نشانی ہیں ،زمین پر انکے برپاکرنے کی حکمت ومصلحت کیا ہے وہی اسکو خوب جانتاہے ،اسلامی فکرہر حال میں انسان کو اللہ کے دربارمیں پہونچاتی ہے اوروہ اس بات کو تسلیم کرلیتا ہے کہ کائنات میں بس اسی کا حکم چلتاہے ،وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتاہے ۔بظاہر معمول کے برخلاف نا خوشگوارحادثات جوانسانوں کو دشوارگزار حالات سے دوچارکرتے ہیں اورجن کو انسان پسندنہیں کرتے لیکن اس میں بھی خالق کائنات کی بڑی حکمت ومصلحت کارفرما ہوتی ہے جو انسانوں کو فائدہ پہونچاتی ہے اوران کے لئے کائنات میں غوروفکرکے صحیح ودرست راہ پر چلنے اورحق کو تسلیم کرنے کے دروازے کھولتی ہے۔اللہ سبحانہ کی رحمت ومہربانی اس کے غضب پر غالب ہے ’’رحمتی غلبت علی غضبی‘‘ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ انسان اس کے احکامات سے انحراف کرے اور آزادروش اختیارکرکے نفس وشیطان کا بندہ بن جائے ،کفروشرک ،گناہوں ،نافرمانیوں پر اصرار اورخالق ومخلوق کے حقوق کی ادائیگی میں قدرت کے بنائے ہوئے نظام عدل کے بجائے ظلم کی روش اختیارکرلی جائے۔یہی وہ بھول ہے جو انسانوں کو اللہ کی رحمت سے دورکرکے اسکے غضب وعتاب کا مستحق بناتی ہے،ارشادباری ہے’’کیا پھر بھی ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے مطمئن ہوگئے ہیں کہ ان پر ہماراعذاب رات کے وقت آجائے اس حال میں کہ وہ نیندکی آغوش میں ہواورکیا ان بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے فکرہوگئے ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن چڑھے ان کو دبوچ لے جبکہ وہ لہوولعب میں مشغول ہوں ‘‘(الاعراف:۹۷۔۹۸)آیت ۹۶میں حق سبحانہ وتعالی نے ایمان وتقوی کی برکات کا ذکرفرمایا ہے ،ایمان وتقوی جن کی زندگی کا نصب العین ہوگا وہاں رحمتیں ہی رحمتیں ہوںگی اسکی برکتوں کے دروازے ہر آن کھلے رہیں گے ، اس کے برعکس جہاں کفروشرک اورعصیان وطغیان کا بازارگرم ہوگا،اللہ کی زمین جہاں ظلم سے بھر گئی ہوگی وہاں اللہ سبحانہ کی رحمتوں کا گزرکہاں ہوگا،اللہ نے اپنی گرفت جو ڈھیلی چھوڑرکھی ہے وہ کبھی بھی اورکسی وقت بھی تنگ کی جاسکتی ہے۔

وہاں تودن ورات کی کسی بھی گھڑی عذاب آسکتاہے ،اللہ سبحانہ کو قدرت ہے کہ وہ ظالموں پر اپنا شکنجہ کسے ،آن واحد میں ہنستی کھیلتی زندگیاں بربادہوجائیں ،زندگی کا چمنستان اجڑجائے ،عیش وعشرت کے محلات کھنڈرات میں تبدیل ہوجائیں،اس لئے انسانوں کواللہ سبحانہ کے خوف سے ہمیشہ لرزاں وترساں رہنا چاہیئے۔سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے عہدمبارک میں کبھی زلزلے نہیں آئے، آپ ﷺ نے اس کو قیامت نشانیوں میں شمارفرمایا ہے  اس لئے یہ زلزلے بھی قدرت کی ایک نشانی ہیں ’’لا تقوموا الساعۃ حتی یقبض العلم وتکثر الزلازل ‘‘(جامع الاحادیث:۱۶؍۳۰۷،رقم ۱۶۸۴۳)قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ علم کونہ اٹھا لیا جائے اورکثرت سے زلزلے نہ ہوں۔ارشاد باری ہے’’والارض ذات الصدع‘‘ (الطارق:۱۲) اللہ سبحانہ نے پھٹنے والی زمین کی قسم ارشاد فرمائی ہے ،۱۴سوسال قبل زمین کے پھٹنے کا انکشاف قرآن نے کیا ،جیولوجی کی تحقیقات تو ایک صدی کے اندرکی ہیں ، معرفت ربانی سے معمور اصحاب بصیرت کے سینوں کو اس تحقیق نے مزیدمعرفت حق سے سرشارکردیا ہے۔ سیدنا عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کی دورمیں شدید زلزلہ آیا تھا جسکی وجہ استراحت کے پلنگ ایک دوسرے سے ٹکراگئے تھے،سیدنا عمر الخطاب رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے امت کو متنبہ کیا کہ تم نے دین میں نئی نئی باتیں ایجاد کرلی ہیں اوراس میں تم نے عجلت سے کام لیا ہے اوراگران  نوایجاد امورکا پھر سے تم اعادہ کروگے تو میں تمہارے درمیان سے نکل جائوں گا،ایک اورروایت میں ہے زلزلے تبھی آتے ہیں جب کوئی نئی چیز ایجادکرلی جاتی ہے،اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے اگردوبارہ ایسا ہوا تو میں تمہارے ساتھ نہیں رہوں گا۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں’’جب اللہ سبحانہ کا خوف دلا نے کیلئے تیز ہوائیں چلائی جاتی ہیں جس سے خشوع اوراللہ کی طرف رجوع کی صورت پیدا ہوتی ہے تو پھریہی کچھ مقصودزلزلے جیسی نشانیوں کا ہے کہ اس سے تو اوربھی زیادہ خوف دلانا مقصود ہے،یہ بات نصوص شرعیہ سے ثابت ہے کہ زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانی ہے۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کوفہ میں زلزلہ آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا ’’اے اللہ کے بندو!تمہارا رب تم سے ناراض ہوچکا ہے اوروہ چاہتا ہے کہ تم اسے راضی کرلواوراسی کی طرف رجوع کرتے ہوئے خوب توبہ واستغفارکا اہتمام کروورنہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ:۲؍۴۷۳،رقم ۸۳۳۴) یہ زلزلے،طوفان وحوادث قدرت کی طرف سے ایک الارم ہیں اس سے متنبہ ہو کر جو خواب غفلت سے بیدارہوجائیں ،اپنے خالق ومالک کی معرفت حاصل کرلیں ،اس کے احکام کی اتباع اورپیروی میں رسولوں پھر خاص طورپر      خاتم النبیین ﷺکی نبوت ورسالت ،آخرت ،تقدیر،کتب آسمانی خاص طورپر قرآن مجید ،فرشتوں اورموت کے بعد زندہ کرکے دوبارہ اٹھائے جانے اوراسکے حضور حاضری کے یقین وایمان کے ساتھ جوابدہی ، کائنات میں وقوع پذیرحوادثات مبنی بر مشیت ومصلحت الہی ہونے پر      دل وجان سے ایما ن لائیں اوراسکی مرضیات کے مطابق عملی زندگی کی راہ تجویز کریں ،دنیا میں مصائب وآلام سے محفوظ رہنے،خوشگوارزندگی کے اسباب پانے اورآخرت میں سرخ رواورکامیاب ہونے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔