طوطے نے لی آزادی کی سانس

پرانے زمانے کی بات ہے ، ایک سوداگر کے پاس ایک خوبصورت طوطا تھا۔ یہ طوطا بڑی اچھی اور میٹھی باتیں کرتا تھا ۔ لوگ اسے دور دور سے دیکھنے آیا کرتے تھے لیکن تمام تعریفوں کے بعد وہ یہ سوچتا رہتا تھا کہ کسی طرح ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کرے گا۔ وہ اپنے دل کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا تھا۔
ایک دن اس کا مالک ، جو ایک سوداگر تھا۔ کسی دوسرے ملک کو تجارتی کی غرض سے جارہا تھا ۔ اس نے گھر والوں سے پوچھا کہ وہ ان کیلئے کیا لائے ۔ ہر ایک نے اپنی پسند بتائی ، سوداگر نے یہی بات طوطے سے بھی پوچھی ۔ وہ بولا جب آپ جنگل سے گزریں تو وہاں کے طوطوں کو میری طرف سے کہیں کہ تم سے ملنے کو میرا دل ترس رہا ہے ، تم آزاد ہو ، باغوں اور جنگلوں میں مزے کر رہے ہو، میں یہاں قید میں ہوں اور ہر وقت تمہیں یاد کرتا ہوں۔ سودا گر جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر چند طوطوں پر پڑی ۔ اس نے گھوڑا روک کر طوطے کا پیغام سنایا ۔ پیغام سنتے ہی ایک طوطا تھر تھر کانپنے لگا اور پھر بے جان ہوکر زمین پر گر پڑا۔ سوداگر کو طوطے کی موت کا بہت افسوس ہوا ۔ جب سوداگر اپنے گھر آیا اور گھر والوں کو تحفے تقسیم کئے تو طوطے نے بھی اپنی فرمائش کے بارے میں پوچھا کہ پوری کی ہے یا نہیں۔ سوداگر نے ٹھنڈی سانس لی اور طوطے کو سارا ماجرا کہہ سنایا ۔ جوں ہی طوطے نے سارا واقعہ سنا وہ بھی تھرتھر کانپنے لگا اور پنجرے میں ایک طرف گرگیا ۔ سوداگر اور اس کے گھر والوں کو طوطے کی موت کا بے حد افسوس ہوا ۔ کچھ دیر بعد سودا گر نے طوطے کو پنجرے سے نکالا اور اٹھاکر باہر پھینک دیا ۔ چند لمحوں کے بعد طوطے نے پر پھڑ پھڑائے اور ایک درخت کی اونچی شاخ پر جا بیٹھا ۔ یہ دیکھ کر سوداگر حیران رہ گیا ! طوطے نے سوداگر سے کہا کہ میرے ساتھی نے اپنے عمل سے مجھے آزاد ہونے کی ترکیب بتائی تھی۔ اس نے یہ بتایا کہ آزادی کے لئے جان بھی قربان کی جاسکتی ہے ۔ یہ کہہ کر طوطا اپنے وطن کی طرف خوشی خوشی اڑ گیا۔