حضرت یحییٰ بن یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مایۂ ناز شاگرد اور علمائے حق کے سرخیل تھے۔ آپ نے طلبِ علم کے لئے افریقہ، مصر، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفر کیا۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ’’عاقلِ اندلس‘‘ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ آپ کی ساری عمر دینی خدمات میں بسر ہوئی، حکومت کا کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔
اندلس کی اموی سلطنت نے زندگی بھر آپ کا احترام قائم رکھا۔ آپ صرف قاضیوں کی عدالت تک ہی محدود نہیں رہے، بلکہ گورنروں اور سپہ سالاروں تک کے ہاں آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
طلبِ علم کے زمانہ میں ایک دفعہ آپ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بیٹھے تھے کہ کسی نے باہر سے آکر بتایا کہ ’’ہاتھی آیا ہے‘‘۔ اہل عرب کے ہاں چوں کہ ہاتھی ایک عجیب و غریب مخلوق سمجھی جاتی تھی، اِس لئے اُسے دیکھنے کے لئے لوگ امنڈ پڑے، حتی کہ جب حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس سے بھی اُٹھ کر لوگ ہاتھی دیکھنے چلے گئے تو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے درس کو موقوف فرما دیا، مگر حضرت یحییٰ بن یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ حسب معمول حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں بیٹھے رہے۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہونہار شاگرد سے فرمایا: ’’تمہارے ملک میں بھی ہاتھی نہیں ہوتا، تم بھی جاکر اسے کیوں نہیں دیکھ آتے؟‘‘۔
حضرت یحییٰ بن یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا ’’حضرت! وطن، اہل خاندان، احباب اور عزیز و اقارب کو چھوڑکر یہاں آپ کی خدمت میں اس غرض سے آیا ہوں کہ آپ کے چہرۂ مبارک کو دیکھا کروں۔ فی الحال مجھے فقط آپ کی زیارت مطلوب ہے اور آپ کے عمدہ خصائل و عادات کو سیکھنا چاہتا ہوں، میں اتنی دُور سے ہاتھی دیکھنے نہیں آیا‘‘۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنے قابل فخر شاگرد کا جواب سن کر بہت مسرور ہوئے اور آپ کو ’’اندلس کے عقلمند‘‘ کے خطاب سے نوازا۔
اسلامی اندلس کی پوری تاریخ میں جو عزت و عظمت اور وجاہت حضرت یحییٰ بن یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہوئی، کسی دوسرے اہل علم کو نہیں ہوئی۔ درحقیقت آپ اندلس کے ’’بے تاج بادشاہ‘‘ تھے۔ (تاریخ اسلام سے اقتباس)