طلاق ثلاثہ پر حکومت ہند کی قانون سازی سے اقلیتوں میں عدم اعتماد

مسائل کو شرعی عدالتوں سے رجوع کرنے شعور بیداری مہم ، حکومت کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کی منصوبہ بندی
حیدرآباد۔یکم۔جنوری(سیاست نیوز) حکومت ہند کی جانب سے طلاق ثلاثہ کو قابل تعزیر جرم قرار دیئے جانے کے بعد ہر جگہ اسی مسئلہ پر بحث و مباحث کا سلسلہ جاری ہے اور لوگ اپنی اپنی دلیل دیتے ہوئے حکومت کے اقدام کی مذمت کر رہے ہیںا ور کہا جارہاہے کہ اس طرح کے فیصلوں سے ملک میں بسنے والی اقلیتوں میں عدم اعتماد پیدا ہوگا ۔ لوک سبھا میں طلاق ثلاثہ دینے کے مرتکب کو سزاء کے بل کو منظور کئے جانے کے بعد یہ مسئلہ ہر نشست میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ حکومت کی جانب سے کئے گئے اس اقدام کے بعد مذہبی گوشوں کی جانب سے شرعی عدالتوں سے رجوع کرنے کی مہم کو تیز کرنے اور عوام میں شعور اجاگر کرتے ہوئے انہیں اپنے عائلی مسائل کے لئے علماء سے رجوع ہونے کی مہم چلانے پر غور کیا جانے لگا ہے جبکہ کچھ گوشوں کی جانب سے فوری احتجاج میں شدت پیدا کرتے ہوئے اس بل کو راجیہ سبھا میں پیش ہونے سے روکنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جانے لگا ہے ۔ حکومت ہند نے طلاق ثلاثہ بل کے ذریعہ مسلمانوں کے عائلی مسائل کے قوانین میں راست مداخلت شروع کردی ہے اور اس کے جواب میں مسلمانوں کے سرکردہ علماء اور ذمہ داروں کی جانب سے امت کو اس بات کی تلقین کی جا رہی ہے کہ وہ جذبات پر قابو رکھتے ہوئے اس بات کی کوشش کریں کہ وہ اپنے عائلی مسائل کے حل کے لئے علماء سے رجوع کریں ۔ شہر حیدرآباد میں قاضیوں کی جانب سے یکطرفہ طلاق کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کئے جار ہے ہیں اور کہا جا رہاہے کہ زوجہ کی غیر موجودگی میں طلاق کیلئے رجوع ہونے والے افراد کو تاکید کی جارہی ہے کہ وہ طلاق دینے سے قبل مفاہمت کی راہ اختیار کریں اور اس کے بعد ہی طلاق کے سلسلہ میں قطعی فیصلہ کریں۔ سال 2017کے دوران مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے طلاق ثلاثہ مسئلہ پر شعور بیداری مہم‘ طلاق ثلاثہ کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قراردیئے جانے کے فیصلہ اور دیگر وجوہات کی بناء پر یہ موضوع زیر بحث رہا اس کے باوجود بھی اس مسئلہ کے حل کے کوئی آثار نظر نہیں آئے بلکہ یہ کہا جا رہاتھا کہ اس قانون کے ذریعہ بیرونی شہریوں کی شادیوں اور یکلخت طلاق کے مسائل کا بھی حل ہوگا اور عوام میں اس کے متعلق شعور اجاگر ہوگا لیکن ایک سال کے دوران مہم اور اقدامات کے باوجود عرب باشندوں سے شادی کا مسئلہ جوں کا توں برقرار رہا اور سال 2017 کے دوران صرف پرانے شہر میں محکمہ پولیس کی جانب سے کی گئی کاروائی کے دوران لاج مالکین ‘ قاضی اور عرب باشندوں کو گرفتار کیا گیا ۔ اس کے علاوہ ریاست تلنگانہ میں تلنگانہ ریاستی وقف بورڈ کی جانب سے ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے تنازعات کی یکسوئی کیلئے کونسلنگ کا انتظام کیا گیا ہے اور کہا جا رہاہے کہ اس ادارہ سے بھی کئی جوڑے رجوع ہو رہے ہیں تاکہ عائلی مسائل کے حل کیلئے کونسلنگ ہو سکے ۔