طلاق ثلاثہ پر حکومت کا موقف اہل اسلام کو شریعت سے مزید قریب کریگا

طلاق ثلاثہ کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے شدت پسند ، اسلام دشمن ذہنیت وقفہ وقفہ سے زیربحث لاتی رہی ہے ، کئی مرتبہ یہ مسئلہ مسلمانوں کے پرزور احتجاج پر التواء کے نظر ہوگیا لیکن اس بار حکومت نے قانون و عدالت کا سہارا لیکربزعم خود کامیاب کوشش کی ہے ۔ متعلقہ موضوع پر اسلام کے عظیم نمائندے ، اسکالرس ، محققین ، فاضل علماء و مضمون نگار نے اسلامی تحقیقات کو پیش کیا ہے ۔اس ضمن میں حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے عظیم سپوت ، جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل ، دنیا جہاں کے عظیم محقق ڈاکٹر محمد حمیداﷲ (پیرس) نے ایک جامع تحریر سپرد قلم کی تھی جو ’’معارف‘‘ کے شمارہ ڈسمبر ۱۹۷۲؁ء میں بعنوان ’’مرکز سیاست اور قانون شخصی ‘‘ شائع ہوئی جس کے چند اقتباسات ہدیہ ناظرین کی جاتی ہیں ۔

’’یہ تاریخی واقعہ قابل ذکر ہے کہ خلافت راشدہ میں مسلمان سیلاب کی رفتار سے دنیا میں پھیل گئے ۲۶؁ھ میں یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی وفات کے صرف پندرہ سال بعد حضرت عثمانؓ ہی کے زمانہ میں دارالخلافہ کا رقبہ مدینہ سے ایک طرف اندلس ( اسپین) تک اور دوسری طرف ماوراء النھر میں چینی ترکستان تک وسیع ہوگیا، اس وقت رعایا کی بہت بڑی اکثریت غیرمسلم تھی اور ان لوگوں کی تھی جو کل تک حکمراں تھے اور ’’راتوں رات‘‘ محکوم بن گئے تھے ، لیکن اپنے ماضی کو نہ بھولے تھے ، حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد مسلمانوں میں جانشینی کے مسئلہ پر خانہ جنگی شروع ہوئی جو عبداﷲ بن زبیرؓ کی شکست اور عبدالملک بن مروان کی کامیابی تک عملاً بیس سال جاری رہی ، تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ اس خلفشار کے زمانہ میں بھی کسی جگہ غیرمسلم رعایا نے بغاوت نہ کی ، حتی کہ جب قیصر روم نے اپنی سابق رعایاکو ابھی تک عیسائی تھی ، ترغیب دلائی اور فوجی مدد کا وعدہ کیا، اس وقت بھی یہ غیرمذہب والے ( مسلمانوں) کی ماتحتی کو ترجیح دیتے رہے اور اپنے ہم مذہب ییزنیطنیوں کی حکومت میں دوبارہ آنا پسند نہ کیا‘‘ ۔
مسلمانوں کے باہمی خلفشار کے باوجود عیسائیوں نے اپنے ہم مذہب بیزنطی حکومت کے خلاف مسلمانوں کے زیرحکومت رہنے کو ترجیح دی اس کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد حمیداﷲ رقمطراز ہیں:
’’مسلمانوں نے قرآنی احکام کی تعمیل میں مفتوحہ علاقوں میں اپنا قانون جاری نہیں کیا ،بلکہ ہر طبقے کو قانونی اور عدالتی آزادی دیدی، مسلمانوں کے لئے اسلامی قانون اور غیرمسلموں کے لئے ان کے اپنے قانون پر عمل رہا ، حتی کہ حاکم عدالت بھی اس سے مستثنیٰ نہ تھے اگر فریقین مقدمہ نسطوری فرقے کے عیسائی ہوتے تو قانون بھی نسطوری اور عدالت بھی نسطوری اور حاکم عدالت بھی نسطوری ہوتا تھا جو نسطوری قانون کے مطابق فیصلہ کرتا تھا ، اور ہر فرقے کے مذہبی پیشواؤں کو اجازت تھی کہ وہ اپنا حاکم عدالت خود مقرر کیا کریں، مسلماں حکومتیں ہزار سال سے زیادہ تک اس پر عمل کرتی رہیں ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرمسلم رعایا نے کبھی مذہبی اساس پر بغاوت کی اور نہ اپنے ہم مذہب بیرونی حملہ آوروں کی مدد کی۔
یہ طریقہ مدینہ ، دمشق ، بغداد اور قسطنطنیہ ہی میں نہیں بلکہ دہلی اور حیدرآباد میں بھی تھا ۔ کیا ہندو بتاسکتے ہیں کہ مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ حکومت میں حکومت نے کبھی ہندوؤں پر ان کے شخصی مسائل میں اپنا قانون جاری کیا ہو؟ نکاح ، طلاق ، وراثت ، عقد بیوگان اور اس کے مماثل دوسرے معاملات میں ہمالیہ سے لیکر لنکا تک ہر فرقہ اور ہرمذہب اپنے قانون پر عمل کرتا رہا ‘‘ ۔
مغربی تہذیب اور اس کی اندھی تقلید نے انسانی سماج کو کھوکھلا کردیا ہے ، جس کی وجہ سے عائلی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداﷲ مغرب میں قانونِ طلاق کے منفی اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اسلام میں طلاق کی آزادی ہے ، انجیل میں طلاق کو حرام قرار دیا گیا ہے، مغرب نے طویل تجربے کے بعد مجبور ہوکر یورپ اور امریکہ دونوں میں کشوری قانون کے ذریعہ طلاق کی اجازت دیدی اور آج طلاقوں کا تناسب یورپ و امریکہ میں اسلامی ممالک سے اونچا ہوچکا ہے اور چونکہ عدالتی طلاق گراں بھی ہے ، طویل وقت بھی لگتا ہے اور قسم قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چونکہ فرنگستان میں زنا بالرضا جائز ہے اس لئے بغیر طلاق کے ہزاروں لاکھوں شادی شدہ مرد داشتاؤں کے ساتھ اور شادی شدہ عورتیں اپنے دوستوں کے گھر میں روزافزوں رہنے لگی ہیں‘‘ ۔
مغرب کے قانونِ طلاق میں تنگی اور اسلام کے نظام طلاق میں وسعت و کشادگی پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’فرنگی قانون میں طلاق کی صرف ایک صورت ہے یعنی تفریقِ عدالتی اسلام میں پانچ صورتیں ہیں (۱) یک طرفہ شوہر کی مرضی پر (۲)یک طرفہ بیوی کی مرضی پر ( عقد نکاح میں تفویض طلاق کے ذریعہ سے) (۳) طرفین کی رضامندی سے ( خلع کے ذریعہ سے) (۴) تحکیم اور ثالثی کے فیصلے پر (۵) تفریق بحکم قاضی ( یعنی حاکم عدالت) ۔
باطل کے پروپگنڈے سے تجدد پسند مسلمان بھی متاثر ہورہے ہیں اور اسلام کے حساس مسائل پر بے دریغ اپنی رائے کا اظہار بھی کررہے ہیں ، جس پر ڈاکٹر محمد حمیداﷲ ان تجدد پسند مسلمانوں کی دین بیزاری پر افسوس کرنے کے بجائے اصل مرض تک پہنچنے پر زور دیتے ہیں :
’’قرآن و حدیث میں طلاق کی شدید مذمت اور بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی جو تعلیم ہے اس کو فرنگی اور جمہوری دونوں زمانوں میں اس لئے کچلا گیا ہے کہ مذہبی تعلیم کو مدارس سے خارج رکھا گیا ، اس میںقصور مسلمانوں کا نہیں ، اگر کسی درخت کے پتے مرجھائے ہوئے نظر آئیں تو ان کو توڑنے کے بجائے جڑ کو دیکھنا چاہئے کہ اس میں کونسا کیڑا لگ گیا ہے ‘‘ ۔
مضمون کے اختتام پر ڈاکٹر محمد حمیداﷲ مرکزی سیاست کو نہایت نرم لہجے میں آگاہ کرتے ہیں کہ اس طرح اسلامی شریعت میں مداخلت کی کوشش کرنے اور اہل اسلام کے باہمی فرقوں کے اختلافات کو ہوا دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جوں جوں اسلامی احکامات کے خلاف شدت بڑھے گی مسلمان اتنی ہی شدت سے اسلام کے قریب ہوں گے جس کے نتیجے میں مرکز اور حکومت کے تئیں عوامی نفرت میں اضافہ ہوگا جو کسی بھی حکومت کے استقرار کے لئے اچھی علامت نہیں :
’’اسلام میں ہر شخص کو آزادی ہے کہ اس کے فرقوں میں سے جس فرقے سے چاہے تعلق رکھے ، سنی چاہے تو شیعہ بن جائے ، شیعہ چاہے تو سنی بن جائے اسے کوئی نہیں روک سکتا لیکن اگر کوئی مسلمان حکومت سنّیوں پر شیعہ قانون اور شیعوں پر سنی قانون نافذ کرے تو اس سے رعایا کی دلشکنی اور حکومت سے نفرت پیدا ہوگی ۔ آج پاکستان سے زیادہ ہندوستان میں مسلمان اپنے دین پر راسخ ہیں ۔ مصر اور الجزائر سے زیادہ روس کے مسلمان اپنے دین پر جمے ہوئے ہیں اور پچاس سالہ دباؤ نے ان کو مذہب سے پھیرنے کے بجائے اس پر اور مستحکم کردیا ہے‘‘ ۔