نئی دہلی، 2جنوری(سیاست ڈاٹ کام )سابق سفارت کار وممبرپارلیمنٹ م۔ افضل نے ‘طلاق ثلاثہ بل’ پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس پرگہرے سوال کھڑے کئے ہی۔ اپنے ایک تازہ بیان میں انہوں نے کہاکہ سرکار جس طرح عجلت میں یہ اہم بل لے کر آئی اور اسے لوک سبھا سے منظور کروانے میں جو جلدی دکھائی اس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سرکار کی نیت میں کھوٹ ہے ۔ اس کا مقصد مسلم خواتین کی فلاح وبہبود نہیں بلکہ مسلم معاشرہ میں انتشار وتفریق پھیلانا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یہ بل پیچیدگیوں اور خامیوں سے بھرا ہوا ہے ۔یہاں جاری ایک پریس ریلیز میں مسٹر افضل نے اس بل کے جواز پر یہ کہہ کر سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کو مسترد کیا ہے ۔ اسے ‘جرم’ کے صیغہ میں نہیں رکھا ہے مگر سرکار نے اسے ایک سنگین اور غیر ضمانتی ‘جرم’ قرار دے دیا ہے ۔ انہوں نے سوال کیاکہ جب ایک وقت میں تین طلاق دینے سے ، طلاق ہی نہ ہوگی تو پھر اس کے لئے شوہر کو ‘مجرم’ کیسے ثابت کیاجائے گا؟انہوں نے یہ بھی سوال کیاکہ اس ‘جرم’ میں شوہر اگر جیل گیا تو بیوی اور بچوں کی کفالت کا کیا ہوگا کیونکہ طلاق تو ہوگی نہیں، وہ بدستور شوہر کے نکاح میں ہوگی، کیا شوہر کے گھر والے اسے قبول کریں گے اور اپنے ساتھ رکھیں گے ؟ پھر یہ کہ تین برس کی جیل کاٹ کر جب شوہر باہر آئے گا تو کیا وہ اسے اپنی بیوی کے طور پر رکھے گا؟ ایسے میں اس خاتون کا مستقبل کیا ہوگا؟ اگر بچے بھی ہیں جو جیل جانے کی صورت میں ان کے اخراجات کون اٹھائے گا؟مسٹر افضل نے کہاکہ بل کے منفی نتائج کی پروا کئے بغیر اسے تیار کیاگیا ہے اس کے لئے کسی سے صلاح ومشورہ بھی نہیں کیاگیا بلکہ یہ بل ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی معاشرتی زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ سرکار بل کی تیاری کے وقت اپوزیشن پارٹیاں ہی نہیں مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور علماء سے بھی صلاح ومشورہ کیا جاتا اور ان کی تجاویز کی روشنی میں اس کامسودہ تیار ہوتا۔