طلاق ثلاثہ آرڈیننس کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل

کیرالا کی مسلم خواتین تنظیم سمستھ کیرالا جمعیت العلماء کی سپریم کورٹ میں سماعت
نئی دہلی 25 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دینے کے آرڈیننس کے دفعات کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں آج ایک درخواست داخل کردی گئی۔ مسلم خواتین (تحفظ ازدواجی حقوق) آرڈیننس نے طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دیا گیا ہے۔ طلاق ثلاثہ کو طلاق بدعت بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مسلم مرد ایک ہی نشست میں تین مرتبہ اپنی بیوی کو طلاق دے سکتے ہیں۔ مجوزہ آرڈیننس کے تحت ایک ہی نشست میں طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم اور غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔ اِسے کالعدم تصور کیا جائے گا اور خاطی شوہر کو تین سال کی سزائے قید بھی ہوسکتی ہے۔ مجوزہ قانون سے پیدا ہونے والے خوف کا کہ اِس قانون کا استحصال بھی کیا جاسکتا ہے، حکومت نے اِس میں ایک دفعہ شامل کی ہے جس میں چند تحفظات دیئے گئے ہیں جیسے کہ قبل ازیں مقدمہ کی سماعت سے پہلے ضمانت پر رہائی وغیرہ۔ کیرالا میں قائم ایک تنظیم نے جس کا نام سمستھ کیرالا جمعیت العلماء ہے، سپریم کورٹ میں اپنی درخواست داخل کرتے ہوئے کہاکہ مرکزی حکومت نے یہ آرڈیننس جاری کیا ہے اور یہ انتہائی تعصب اور فرق و امتیاز پر مبنی ہے۔ یہ دستور کی دفعات 14 ، 15 اور 21 کی خلاف ورزی کرتا ہے چنانچہ اِسے کالعدم قرار دیا جانا چاہئے۔ آرڈیننس میں تعزیتی قوانین متعارف کروائے گئے ہیں جو ایک مخصوص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کا ایک علیحدہ مذہبی تشخص ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 123 کا حوالہ دیتے ہوئے یہ درخواست قانون داں ذوالفقار علی کے توسط سے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 123 فوری کارروائی کا تقاضہ کرتی ہے۔ اِس آرڈیننس کے تحت متاثرہ خاتون اپنے نابالغ بچوں کی تحویل کا بھی مطالبہ کرسکتی ہے۔ مجوزہ قانون صرف طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیتا ہے اور اِس سے متاثرہ خاتون کو کسی بھی مجسٹریٹ سے ربط پیدا کرکے نان و نفقہ کا اپنے اور نابالغ بچوں کے لئے مطالبہ کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ اِس تاریخ ساز فیصلہ میں سپریم کورٹ نے 22 اگسٹ کو گزشتہ سال کہا تھا کہ طلاق ثلاثہ پر امتناع عائد کرنے سے اسلامی شریعت اور قرآن مقدس کی ہدایات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔