مرکزی حکومت کا رویہ غیردستوری و غیرجمہوری
حیدرآباد ۔22 ستمبر (پریس نوٹ) جناب محمد رحیم الدین انصاری صدر یونائیٹیڈ مسلم فورم و ناظم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد نے اپنے صحافتی بیان میں بیک وقت تین طلاق پر آرڈیننس کو مرکزی کابینہ کی منظوری پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ یا آرڈیننس جس سے شریعت میں مداخلت ہوتی ہو مسلمانوں کیلئے ہرگز قابل قبول نہ ہوگا، یہ فیصلہ بنیادی حقوق کے خلاف، غیردستوری و غیرجمہوریہ ایک غلط فیصلہ ہے۔ تین طلاق بل کو بنانے کیلئے حکومت نے نہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے رائے لی اور نہ کسی مسلم تنظیم اور علماء کرام سے کوئی ربط کیا اور نہ ہی اسے سلیکٹ کمیٹی سے رجوع کیا گیا، یہ حکومت کی آمریت کی واضح مثال ہے اس لئے مسلمان اسے ہرگز منظور نہیں کرسکتے۔ تین طلاق بل میں بعض دفعات ایسے ہیں جن میں تضاد پایا جاتا ہے اور قانونی پیچیدگیاں اور نقائص موجود ہیں۔ اس لئے اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت غیرجمہوری طریقہ اختیار کرتے ہوئے اور جلد بازی سے کام لیتے ہوئے آرڈیننس کو منظوری دیدی ہے جبکہ یہ بل راجیہ سبھا میں زیرالتواء ہے۔ آرڈیننس میں کافی متضاد باتیں کہی گئی ہیں مثلاً بیک وقت تین طلاق کو تعزیری قانون کے تحت لانا غلط ہے۔ نیز آرڈیننس کے ذریعہ طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سزاء کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ جب طلاق ثلاثہ کو آرڈیننس کے ذریعہ کالعدم قرار دیا گیا تو پھر سزاء کس طرح دی جاسکتی ہے؟ جرم کے واقع ہونے پر سزاء کی گنجائش ہے اور جب جرم ہوا ہی نہیں تو پھر سزاء کس طرح دی جاسکتی ہے؟ اس لئے آرڈیننس غلط فیصلہ ہے اور اس سے ملک میں غلط نظیر بنے گی۔ حکمراں جماعت اس ملک کے مسلمانوں پر جبراً تین طلاق بل تھوپنا چاہتی ہے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کے اقتدار کے چار سالوں میں مسلمانوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جگہ جگہ ہجومی تشدد کے ذریعہ بے قصور مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بیان میں کہا گیا ہیکہ چند خواتین جن کا شریعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں ہے اس فیصلہ سے خوش ہوسکتی ہیں جبکہ اس قانون سے مسلم خواتین کے ساتھ مزید ناانصافی کا اندیشہ ہے اور حکومت مسلم خواتین سے انصاف کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ آخر میں کہا کہ حکومت اپنے چار سالہ دور کی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے طلاق ثلاثہ کے خلاف آرڈیننس کی منظوری دی ہے جو شریعت اسلامی کے قانون میں مداخلت ہے، اس آرڈیننس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ حکمراں اپنے اقتدار اور اس کی بقاء و تحفظ کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں۔