سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی ہندہ کو تین طلاق دیکر اپنی زوجیت سے خارج کردیا اور نفقۂ عدت قاضی صاحب کے پاس جمع کروادیا۔ اور طلاق کے پیپر ہندہ کو رجسٹرڈ پوسٹ روانہ کردیا۔ مہر کی رقم نکاح کے وقت ادا کردی گئی تھی۔
ایسی صورت میں کیا وقوع طلاق کیلئے بیوی کے روبرو الفاظ طلاق کہنا یا بیوی کا اس کو قبول کرنا ضروری ہے ؟
کیا یہ طلاقیں واقع ہوئیں ؟
کیا مطلقہ ایام عدت سے مزید شوہر سے نفقہ پانے کی حقدار ہے ؟
کیا شوہر زید کو دوسرے نکاح کیلئے مطلقہ کی اجازت ضرور ی ہے ؟
جواب: شرعا وقوع طلاق کیلئے شوہر کا بیوی کی طرف الفاظ طلاق کی نسبت کرنا کافی ہے۔ بیوی کا اسکو سننا یا قبول کرنا ضروری نہیں۔ اور سامنے رہنا بھی ضروری نہیں۔بھجۃ المشتاق لاحکام الطلاق ص ۱۵ میں ہے: لا بد فی الطلاق من خطابھا أو الاضافۃ الیھا اور البحر الرائق جلد ۳ کتاب الطلاق الصریح میں ہے : وذکر اسمھا أو اضافتھا الیہ کخطابہ۔
پس بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں شوہر زید نے جس وقت اپنی زوجہ ہندہ کو تین طلاق دیکر اپنی زوجیت سے خارج کردیا، اسی وقت وہ تینوں طلاقیں واقع ہوکر رشتۂ زوجیت بالکلیہ منقطع ہوگیا۔ اس کے بعد دونوں بغیر حلالہ آپسمیں دوبارہ نکاح نہیں کرسکتے ہیں۔ فتاوی عالمگیری جلد اول کتاب الطلاق ص ۳۴۸ میں ہے : وزوال حل المناکحۃ متی تم ثلاثا کذا فی محیط السرخسی۔ اور ص ۴۷۳ میں ہے : وان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ و ثنتین فی الأمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا و یدخل بھا ثم یطلقھا أو یموت عنہا کذا فی الہدایۃ۔
بعد طلاق مطلقہ ہندہ شوہر (زید) سے عدت (تین حیض) کا نفقہ پانے کی حقدار ہے۔ اس کے ادا کرنے کے بعد مزید نفقہ پانے کی حقدار نہیں۔ المبسوط جلد ۵ ص ۲۰۱ میں ہے: قال لکل مطلقۃ بثلاث أو واحدۃ السکنی والنفقۃ ما دامت فی العدۃ۔
زید کو دوسرے نکاح کیلئے مطلقہ ہندہ کی اجازت لینا ضروری نہیں۔
حین ِ حیات اپنی اولاد میں کسی کو محروم کرنا گناہ ہے
سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ کو ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہیں۔ ہندہ اپنی جائیداد میں صرف لڑکے کو دینا چاہتی ہیں، لڑکیوں کو محروم کرنے کا ارادہ ہے۔ ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے ؟
جواب:شرعا ًمالکۂ جائیداد ہندہ کو چاہئے کہ اپنی جائیداد کو اپنی اولاد میں اپنی مرضی سے تقسیم کرکے اس پر قبضہ کرادیں۔ زندگی میں دینا ’’ہبہ‘‘ یا ’’عطا‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں اگر وہ کُل جائیداد لڑکے کو دیدیں اور لڑکیوں کو محروم کریں تو لڑکا بعد قبضہ مالک ہوجائے گا، لیکن والدہ (ہندہ) گنہگار ہونگی۔ درمختاربرحاشیہ ردالمحتار جلد ۴ کتاب الہبہ میں ہے: وفی الخانیۃ لا بأس بتفضیل بعض الاولاد فی المحبۃ لأنھا عمل القلب و کذا فی العطایا ان لم یقصد بہ الاضرار وان قصدہ یسوی بینھم یعطی البنت کالابن عندالثانی وعلیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز و اثم۔
پس ہندہ زندگی میں دینا چاہتی ہیں تو لڑکے اور لڑکیوں (سب) کو دیں۔
فقط واﷲ اعلم