طرابلس میں گھمسان جاری، تاحال264ہلاک،لاکھوں افراد تخلیہ پر مجبور

طرابلس۔ 24 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) خانہ جنگی سے دوچار لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں گزشتہ چند ہفتوں سے جاری لڑائی میں کم ازکم 264 افراد ہلاک اور 12 سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا تھا کہ لیبیا میں ہلاکتوں کی تعداد 264 سے تجاوز کرگئی اور حالات بدستور خراب ہیں۔ڈبلیو ایچ او نے ٹوئٹر میں جاری اپنے پیغام میں دونوں فریقین سے جارحیت کو روک کر انسانی قانون کے احترام کا مطالبہ کیا۔یاد رہے کہ شمالی حصے پر قابض خلیفہ حفتار نے 4 اپریل کو اپنے لیبین نیشنل آرمی نے عالمی طور پر تسلیم دارالحکومت تریپولی کی جانب پیش قدمی شروع کی تھی۔عالمی طور پرتسلیم طرابلس کی حکومت اور اسکی نیشنل کارڈ (جی این اے ) نے دفاعی کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا جس کے بعد دونوں اطراف سے حملوں کو سلسلہ بدستور جاری ہے جو اب دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے

۔لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی رابطہ کار ماریا ربیریو نے کہا کہ طرابلس کے جنوب میں جاری لڑائی میں اب تک 35 ہزار سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تصادم کے باعث‘‘روز بروز بے گھر افراد کی تعدادمیں مزید اضافہ ہورہا ہے ’’اور خبردار کیا کہ معاملے میں مزید شدت آئے گی۔خیال رہے کہ جی این اے کی جانب سے گزشتہ ہفتہ شروع کی گئیں کارروائیوں کے آغاز کے بعد دونوں فریقین کے درمیان رابطے منقطع ہیں۔خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جی این اے کے سیکورٹی اہلکاروں نے حفتار کی فورسز کو جنوبی ضلع عینزارا میں کئی کلومیٹر پیچھے دھکیل دیا ہے ۔یاد رہے کہ لیبیا میں 2011 میں اس وقت کے مضبوط حکمران معمر قذافی کے خلاف عوام نے شدید احتجاج کیا تھا اور عوام کو ناٹو ممالک کا تعاون بھی حاصل تھا تاہم معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد انتظامیہ اور مسلح گروہوں کے درمیان حکومت کے حصول کے لیے لڑائی شروع ہوئی۔لیبیا کی نیشنل آرمی کے سربراہ جنرل خلیفہ حفتار کی جانب سے رواں ماہ کے اوائل میں اقوام متحدہ سمیت عالمی طور پر تسلیم شدہ طرابلس کی حکومت کے خلاف پیش قدمی شروع کردی تھی جس کے بعد ملک میں ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی شروع ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔خانہ جنگی کے خدشات کے پیش نظر اقوام متحدہ سمیت متعدد ممالک نے لیبیا کے مسائل کے حل کے لیے سفارتی کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔