قیادت کے مسئلہ پر تنظیم میں پھوٹ کے آثار نمایاں
کابل 4 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے سربراہ مستعفی ہوگئے۔ ایک بیان کے بموجب یہ اعلیٰ سطحی استعفیٰ قیادت کی صفوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اظہار ہے جو تحریک میں حالیہ اقتدار کی منتقلی کی سلسلہ میں پیدا ہوئی ہے۔ مُلاّ اختر منصور کو طالبان کا نیا سربراہ نامزد کرنے کا جمعہ کے دن اعلان کیا گیا تھا جبکہ شورش پسندوں نے مُلاّ عمر کے انتقال کی توثیق کردی تھی جو تحریک کی گزشتہ 20 سال سے قیادت کررہے تھے۔ لیکن پھوٹ فوری طور پر مُلاّ منصور اور اُن کے تقرر کو چیلنج کرنے والے حریفوں کے درمیان اُبھر آئی جس کی وجہ سے طالبان کی سب سے بڑی قیادت کے بحران کا پردہ فاش ہوگیا جو حالیہ برسوں میں پیدا ہوا ہے اور اندیشہ ہے کہ اِس سے طالبان تحریک کے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ داخلی انتشار میں گہرائی پیدا ہونے کی اہمیت اِس سے ظاہر ہوتی ہے کہ طیب آغا کل طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ کے عہدہ سے مستعفی ہوچکے ہیں۔ یہ دفتر قطر میں 2013 ء میں قائم کیا گیا تھا تاکہ امن مذاکرات میں سہولت فراہم کرسکے۔ ایک بیان کے بموجب طالبان کے ایک ذریعہ نے توثیق کی ہے کہ بے داغ ضمیر کے ساتھ زندہ رہنے اور مُلاّ عمر کے اُصولوں کی پابندی کرنے کے لئے طالبان کے سیاسی دفتر واقع قطر کے سربراہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ وہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ اُس وقت تک سیاسی دفتر کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہیں گے
جب تک کہ اُن کا جانشین نامزد نہیں کیا جاتا۔ ان کا بیان ایک ویب سائیٹ پر شائع کیا گیا ہے جسے دوحہ کا دفتر ہمیشہ استعمال کیا کرتا ہے۔ بیان کی توثیق طالبان کی جانب سے بھی ہوچکی ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ وہ کسی بھی قسم کی بیان بازی میں ملوث نہیں ہوں گے اور نہ حالیہ داخلی تنازعات کے دوران جو طالبان میں جاری ہیں، کسی بھی فریق کی تائید کریں گے۔ طالبان کے ذریعہ کے بموجب مُلاّ منصور کے قریبی ساتھی آغا کو ترغیب دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اپنے استعفے سے دستبردار ہوجائیں لیکن بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحریک میں ناراضگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو سیاسی اقتدار کی منتقلی کے بارے میں بڑھتی ہوئی تلقی ظاہر کرتا ہے۔ مُلاّ عمر کے انتقال کو دو سال تک راز میں رکھا گیا۔ آغا نے کہاکہ اُن کے خیال میں یہ ایک تاریخی غلطی تھی۔ طالبان نے اِن تفصیلات کا انکشاف نہیں کیا کہ مُلاّ عمر کا انتقال کب اور کہاں ہوا تھا۔ لیکن حکومت افغانستان کا کہنا ہے کہ ان کا انتقال اپریل 2013 ء میں کراچی میں ہوا تھا۔ طالبان مُلاّ عمر کے نام پر بھی اب بھی سرکاری بیانات جاری کررہے ہے حالانکہ عوام نے مُلاّ عمر کو اُس وقت سے نہیں دیکھا ہے جبکہ 2001 ء میں اُنھیں اقتدار سے بیدخل کردیا گیا تھا۔ آغا نے کہاکہ اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے تھا تاکہ نئے قائد کا انتخاب متفقہ طور پر ہوتا۔