طالبان سے مذاکرات کے پیش نظر امریکی ڈرون حملے محدود

واشنگٹن ، 5 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) امریکی حکام کے مطابق اوباما انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کی درخواست کے بعد پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کو بہت حد تک محدود کر دیا ہے۔ اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے پاکستان کی درخواست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک امریکی عہدہ دار کے حوالے سے بتایا کہ ’’انھوں نے یہی مانگا اور اس کا ہم نے نفی میں جواب نہیں دیا‘‘۔ تاہم امریکی انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ سامنے آنے والے القاعدہ کے سینئر رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرے گی ا ور امریکہ کو لاحق کسی بھی براہ راست خطرے کو ٹالنے کیلئے قدم اٹھائے گی۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کی طرف سے گزشتہ سال ڈسمبر سے ڈرون حملوں میں وقفے کی وجہ پاکستان کے سیاسی خدشات ہیں۔ 2011 ء میں پاکستان کے سلالہ چیک پوسٹ پر فضائی حملے کے بعد ڈرون حملوں میں چھ ہفتے کے وقفے کے بعد ڈرون حملوں میں یہ سب سے لمبا وقفہ ہے۔

ڈرون حملوں میں موجودہ کمی نومبر میں ڈرون حملے میں تحریکِ طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد کی گئی جب پاکستانی حکومت اور طالبان کے درمیان کے مذاکرات کی کوششیں ابتدائی مرحلے میں تھیں۔اس حملے کے بعد طالبان نے مذاکرات سے انکار کر دیا تھا ا ور پاکستان کی حکومت نے امریکہ پر ان مذاکرات کو سبوتاج کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ایک سینئر امریکی عہدہ دار نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں کو محدود کرنے کے سلسلے میں پاکستان کے ساتھ کوئی غیر رسمی معاہدہ نہیں کیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’طالبان کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ مکمل طور پر پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘‘۔ پاکستان نے اس خبر پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈرون حملوں کی جزوی نہیں بلکہ مکمل بندش چاہتا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا، ’’میں اس طرح کی خبروں پر تبصرہ نہیں کروں گی کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان بڑے عرصے سے مطالبہ کر رہا ہے کہ امریکہ ڈرون حملے بند کرے کیونکہ اس میں نہ صرف بے قصور لوگ مارے جاتے ہیں بلکہ یہ ہماری خودمختاری کے بھی خلاف ہے‘‘۔