طائفہ خاندان کی لڑکی سے عقد

سوال : کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میںکہ مسماۃ ہندہ بالغہ خاندان طوائف سے ہے وہ محبوب کی مہندی میںرہتی ہے اس کاساراخاندان یہی پیشہ اختیار کیاہوا ہے مگرمسماۃمذکوراس پیشہ سے ہٹ کرگوشہ نشین ہے اورپنجوقتہ نماز اداکرتی ہے اس کے عملیات زندگی قابل ستائش ہیں۔ ایک شخص مسمی زید اس لڑکی سے عقدکرناچاہتاہے لڑکی اورلڑکی کے اہل خاندان اس سے متفق ہیں مگرزیدکے چنداصحا ب خاص اوررشتہ داروںکویہ عذر ہے کہ لڑکی شریف گھرانے کی نہیںہے ایسے کمترگھرانے کی لڑکی سے عقد نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایسی صحبت سے کوسوںدوررہناچاہئے چناچہ شرع شریف بھی ایسے کمترگھرانے کی لڑکیوںکے ساتھ شریف گھرانے کے لڑکوںسے عقدکی ممانعت فرمائی ہے۔ایسی صورت میںشرعاکیاحکم ہے؟
جواب : انسان کی شرافت اللہ تعالی کی اطاعت وپرہیزگاری سے ہے نسب سے نہیںسورہ حجرات میںہے یٰایھاالناس اناخلقنٰـکم من ذکروانثی وجعلنٰـکم شعوباوقبائل لتعارفوا  ان اکرمکم عنداللہ اتقٰـکم ان اللہ علیم خبیر۔نیزشریعت میںکفائت لڑکے والوںکی دیکھی جاتی ہے لڑکی کے خاندان کی نہیں۔ یعنی عاقد عاقدہ کے خاندان سے اعلی ہوناچاہئے الکفاء ۃ معتبرۃ فی الرجال للنساء للزوم النکاح کذافی محیط السرخسی ولاتعتبرفی جانب النساء للرجال کذافی البدائع فاذاتزوجت المرأۃ رجلاخیرامنھافلیس للولی أن یفرق بینھما فان الولی لایتعیربأن یکون تحت الرجل من لایکافؤہ کذافی شرح المبسوط للامام السرخسی۔
صورت مسئول عنہا میںہندہ جب گناہ کی زندگی سے پرہیزکی ہوئی ہے توایک شریف آدمی سے اس کا عقدایک مستحسن اقدام ہوگا۔لہذازیدکاعقداس لڑکی سے کرنے میںشرعاًکوئی قباحت نہیں۔
جوڑے کی رقم
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عقدکے وقت دلہن والوںکی طرف سے جوڑے کی رقم دلہاکو جو بطور عطیہ دیجاتی ہے ۔ اگر میاں بیوی میں عقداختلاف ہوجائے تو کیا یہ رقم واپس کردینا ضروری ہے اور کیا دلہن والوں کو اس کے مطالبہ کاحق ہے  ؟
جواب :  بوقت عقدلڑکی کی طرف سے دلہا کو اور دلہے کی طرف سے دلہن کو جو کچھ دیا اور لیاجاتاہے وہ عرف اور رواج کی بناء پر ہبہ ہے اور زوجین کو آپس میں ہبہ کرنے کے بعد اس سے رجوع کا حق نہیں ہے ۔ وھذا یوجد کثیرا بین الزوجین یبعث الیھا متاعا وتبعث لہ ایضا وھو فی الحقیقۃ ھبۃ ۔ ردالمحتار جلد ۴ ص ۵ اور ہدایہ کے کتاب الہبہ باب مایصح رجوعہ ومالا یصح میں ہے  وان وھب ھبۃ لذی رحم محرم منہ لم یرجع فیھا وکذالک وھب احد الزوجین للآخر ۔ پس صورت مسئول عنہا میں جوڑے کی رقم دلہے کوہبہ کرچکنے کے بعد واپس لینے کا حق نہیں۔
زوجہء متبنٰی کا مہر گود لینے والے پر نہیں
سوال : کیافرما تے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر نے ایک لڑکے کومتبنٰی بنالیا اور اسکی پرورش وتعلیم وتربیت کی ۔ لڑکا باشعور ہونے کے بعد بکر کی اجازت کے بغیر اپنی شادی کرلیا ۔ شادی کے بعد بھی یہ لڑکا اور اسکی بیوی بکر کے ہی زیر پرورش رہے ۔ بعدہ اس لڑکے کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کے متروکہ میں کوئی اثاثہ نہیں ہے ایسی صورت میں کیا مہرکی ادائی بکر کے ذمہ رہے گی  ؟
جواب :  صورت مسئول عنہا میں متبنیٰ کی بیوی کے زر مہر کی ادائی بکر پر واجب نہیں کیونکہ بکر مہرکا ضامن نہیں ہواتھا ۔ اگرچہ متبنیٰ مرحوم کے ترکہ میں کوئی اثاثہ نہیں ہے ۔ بہرحال دوسروں پر خـواہ وہ ولی ہو یا اجنبی جب تک ضامن نہ بنے مہرکی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔                                                       فقط واﷲ اعلم