اہل صولت و سطوت کے رتبہ اور اثر و رسوخ سے خائف ہوئے بغیر احقاق حق و ابطال باطل کے لئے بے باکی، جرأت مندی اور حق گوئی سے کام لینا مؤمن کا طرۂ امتیاز ہے، جس پر ہمارے اسلاف بلاخوف و خطر سختی سے عمل پیرا رہے۔ حکومتوں کا جبر و استبداد، بادشاہوں کا جاہ و جلال، توپوں کی گھن گرج، جیل کی آہنی سلاخیں، قید و بند کی صعوبتیں، مخالفین کی غصب و پابندیاں، معاندین کی عیاریاں، بدطینت لوگوں کی مکاریاں، تازیانوں کی ضرب کاریاں، جلاد کی تیغ زنیاں، تختۂ دار کی ہولناکیاں بھی انھیں کلمۂ حق ادا کرنے سے باز نہ رکھ سکیں۔
حضرت سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے۔ سب سے پہلے نماز پڑھتے، پھر خطبہ عنایت فرماتے۔ لوگ اسی طریقے پر قائم رہے، یہاں تک کہ میں مدینہ کے حاکم مروان کے ساتھ نماز عید الفطر کی ادائیگی کے لئے عیدگاہ پہنچا۔ وہاں دیکھا کہ ایک منبر ہے، جسے کثیر بن صلت نے بنایا ہے اور مروان نے چاہا کہ وہ منبر پر چڑھے تو میں نے اس کا کپڑا پکڑکر اسے کھینچ لیا اور کہا ’’یہ سنت کے خلاف ہے‘‘ (بخاری شریف) یعنی جب مروان نے نماز عید الفطر سے پہلے خطبہ دینے کی بدعدت ایجاد کرنا چاہا تو حضرت سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے حاکم وقت کی اس خلاف سنت حرکت پر سخت گرفت فرمائی اور اس کا کپڑا پکڑکر منبر سے اترنے کو کہا۔
حضرت سیدنا مالک بن دینار رضی اللہ تعالی عنہ تبلیغ اسلام کے لئے برصغیر تشریف لائے تھے۔ آپ انتہائی جری اور حق گو تھے۔ ایک دفعہ آپ بصرہ کی جامع مسجد میں حکمراں طبقہ کے جاہ و جلال اور دبدبہ کو خاطر میں لائے بغیر عوام الناس کے سامنے حکام کے ظلم و جور کی حقیقت بیان کرتے ہوئے برسر عام اعلان فرمایا کہ ’’ان ظالم بادشاہوں کو خدا نے اپنے بندوں کا چرواہا بنایا تھا، تاکہ ان کی رکھوالی کریں، لیکن انھوں نے بکریوں کا گوشت کھالیا، بالوں کا کپڑا بُن کر پہن لیا اور صرف ہڈیاں چھوڑدیں‘‘۔
سلیمان بن عبد الملک اموی کے سامنے مشہور تابعی سلامہ بن دینار المدنی المعروف ابوحازم رحمۃ اللہ علیہ کی حق گوئی کا واقعہ بیان کرتے مفسرین کرام رقمطراز ہیں کہ ’’ایک مرتبہ سلیمان بن عبد الملک مدینہ طیبہ پہنچا اور چند روز قیام کیا۔ اس دوران لوگوں سے دریافت کیا کہ ’’مدینہ طیبہ میں اب کوئی ایسا آدمی موجود ہے، جس نے کسی صحابی کی صحبت پائی ہو؟‘‘۔ لوگوں نے بتایا کہ ’’ہاں۔ حضرت ابوحازم ایسے شخص ہیں‘‘۔ سلیمان نے اپنا آدمی بھیج کر ان کو بلوایا۔ جب وہ تشریف لائے تو سلیمان نے کہا: ’’اے ابوحازم! یہ کیا بے مروتی و بے وفائی ہے؟‘‘۔ حضرت ابوحازم نے کہا: ’’آپ نے میری کیا بے مروتی اور بے وفائی دیکھی ہے؟‘‘۔ سلیمان نے کہا: ’’مدینہ کے سب مشہور لوگ مجھ سے ملنے آئے، لیکن آپ نہیں آئے‘‘۔ حضرت ابوحازم نے بڑے اطمینان اور مؤمنانہ وقار کے ساتھ جواب دیا کہ ’’آج سے پہلے نہ آپ مجھ سے واقف تھے اور نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا تھا، ایسے حالات میں خود ملاقات کے لئے آنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تو پھر بے وفائی کیسی؟‘‘۔
یہ ہے ہمارے اسلاف کی ایمانی حرارت اور حساس زندگی کا نمونہ۔ جب کبھی وہ کوئی خلاف شرع امور دیکھتے تو فوری اعتراض کرتے، اگرچہ اس خلاف ورزی کا مرتکب حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو۔ چوں کہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ انسان جب بے حس ہو جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات مردہ ضمیری کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور مردہ ضمیری سے انسانی اقدار پامال ہوتے ہیں اور جب انسانی اقدار میں گراوٹ آتی ہے تو برائیوں کا چلن عام ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جب انسان کی حساسیت سے ضمیر کو توانائی ملتی ہے اور جب اس کیفیت میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے تو ایک مقام وہ بھی آتا ہے، جہاں اللہ تعالی اپنے بندے کو اس بے بہا نعمت سے سرفراز فرماتا ہے، جسے عرف عام میں روشنا ضمیری کہتے ہیں اور جس انسان کا ضمیر زندہ و روشن ہو جاتا ہے، وہ انسانی اقدار کا محافظ بن جاتا ہے اور جس معاشرے میں انسانی اقدار کا تحفظ ہو، وہاں برائیوں کا خاتمہ ازخود ہو جاتا ہے۔
ہمارے اسلاف کا نڈر و بے باک کردار اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب مسلمان بے حسی کی کیفیت توڑکر جادۂ حق پر گامزن ہوتا ہے تو عددی قوم کم ہونے کے باوجود معرکہ بدر میں کامیابی حاصل کرتا ہے اور قیصر و کسری کی عظیم سلطنتیں اس کے زیر فرمان آجاتی ہیں، لیکن جب وہ خاموشی و بے حسی کا شکار ہو جاتا ہے تو تعداد میں زیادہ ہونے باوجود اس کی حیثیت خس و اشاک کے مانند ہو جاتی ہے۔ اس تناظر میں ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ آج ہمارے کئی کام خلاف شریعت واقع ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ماتھے پر شکن بھی نہیں پڑتی، گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا احساس مرچکا ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارا احساس بالکلیہ مرچکا ہو، چوں کہ اگر ہماری کسی کے ساتھ ذاتی خصومت و رقابت ہو تو ہم اس شخص کی تقریب میں شرکت کرنا تو درکنار، اس سے کسی قسم کا میل ملاپ رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے، لیکن شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں کے تئیں ہمارا یہ رویہ نہیں ہوتا، بلکہ یکسر بدل جاتا ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو جہیز کی بڑھتی لعنت سے خوش ہو؟۔ نجی و خاندانی تقاریب میں ہونے والے اسراف اور خرافاتی افعال کا حامی ہو؟۔ نام نہاد و جعلساز ملاؤں اور عاملوں کے غیر انسانی، مشرکانہ اور نازیبا حرکات سے خوش ہو؟ وغیرہ وغیرہ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا دینی و ملی فریضہ تو یہ تھا کہ ہم ایسے غیر شرعی افعال کے خلاف پوری شدت سے صدائے احتجاج بلند کرتے، لیکن ہم خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ معاشرے میں پنپنے والی ان برائیوں پر بحث و مباحثہ اور وعظ و تقریر کے باوجود ہم ایسی تقاریب میں تزک و احتشام کے ساتھ شرکت کرتے ہیں، جہاں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کوئی بھی اصلاحی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہی ہے۔
ابوزاہد شاہ سید وحید اللّٰہ حسینی
واضح رہے کہ معاشرتی برائیوں کی روک تھام کے لئے صرف زبانی دعوے یا ان خرابیوں پر افسوس کا اظہار کافی نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں شرعی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے عملی اقدامات کرنا چاہئے اور ایسے پُرعزم کام وہی شخص انجام دے سکتا ہے، جو حساس ہو۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کے لئے آج کے اس پرفتن دور میں امت مسلمہ بالخصوص نوجوانان ملت کا حساس ہونا ضروری ہے، کیونکہ نوجوان کسی بھی معاشرہ، جماعت یا قوم کے لئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں انقلابات و تحریکات ان ہی نوجوانوں کے سبب کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ اگر نوجوان طبقہ میں کمزوری واقع ہو جائے اور اس کے کردار میں گراوٹ آجائے تو تنزلی و پستی کسی قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔
قرآنی تعلیمات کے مطابق کامیاب نوجوان وہی ہے، جو یاد الہی سے کبھی غافل نہ ہو، شجیع و بہادر ہو، بلند ہمت و پختہ عقل ہو، عقلمند و باشعور ہو۔ ایسے ہی نوجوان ملت کی مجموعی فلاح و بہبود کے ضامن ہوتے ہیں۔ لیکن صد حیف! آج کا مسلم نوجوان مغربی افکار کا حامل، اخلاقی گراوٹ کا شکار اور دینی شعائر کو مٹانے والے باطل طریقوں پر گامزن ہے۔ آج کے نوجوان کی یہ سوچ ہو گئی ہے کہ وہ جتنا اپنے آپ کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنائے گا، اتنی ہی وہ کامیاب ہوگا، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی آزادانہ سوچ و فکر سے نوجوان کی دین و دنیا دونوں برباد ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی طرز زندگی اپنانے سے اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جاتے ہیں۔
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالی سات قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا، ان میں ایک وہ نوجوان ہے جس نے اللہ تعالی کی اطاعت و فرماں برداری میں پرورش پائی ہو‘‘ (صحیحین) لہذا ہم پر لازم ہے کہ دنیوی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مذہبی تعلیمات پر صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ عمل پیرا ہو جائیں۔ مؤمن کی رفعت شان، علو مقام اور ایمانی احساس کا تقاضیہ یہی ہے کہ ہم دنیا طلبی، مفاد پرستی، مصلحت پسندی اور چاپلوسی کی روش کو خیرباد کہہ کر بے باکی، جرأت مندی اور حق گوئی کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دیں، تاکہ امت مرحومہ جس نازک دور سے گزر رہی ہے، اس کا جلد از جلد خاتمہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)