ضمنی انتخابات کے نتائج

لوک سبھا کے عام انتخابات کے بعد پہلے ضمنی انتخابات میں کانگریس پارٹی اور سماج وادی پارٹی کو اہم کامیابی ملی ہے، وہیں بی جے پی نے مغربی بنگال میں اچھا مظاہرہ کیا۔ ملک کی 9 ریاستوں کے 32 اسمبلی حلقوں کے نتائج میں بی جے پی کو 10، کانگریس کو 7 اور سماج وادی پارٹی کو 7 پر کامیابی ملی جبکہ تلگو دیشم، ترنمول کانگریس، اے آئی یو ڈی ایف اور سی پی آئی ایم نے ایک ایک نشست لی ہے۔ سکم میں آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ اُترپردیش میں بی جے پی کو شدید جھٹکہ لگا ہے جس سے مودی کی لہر کا غبارہ پھٹ گیا۔ بی جے پی کو اب اس حقیقت کا علم ہوجانا چاہئے کہ عوام کارکردگی دیکھتے ہیں، پبلیسٹی نہیں۔ چند ریاستوں میں بی جے پی کی حکمرانی ہے۔ وہاں بھی رشوت ستانی زور پر ہے۔ دیگر ریاستوں میں جس طرح کی پارٹیاں کام کررہی ہیں، اس سے بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں کا تقابل کیا جائے تو کوئی فرق محسوس نہیں ہوگا۔ غالباً ہندوستان کی یہ پہلی حکومت ہے جس نے ابتدائی 100 دن میں ہی اپنی مقبولیت کھو دی ہے۔ اس کا زوال یقینی ہے۔ علاقائی ذات پات کی بنیاد پر سیاسی پارٹی نے جو کھیل کھیلا ہے، اس سے بی جے پی کو سبق حاصل ہوا۔ وہ اپنے سابق ناکام تجربات کے باوجود نظریات اور پالیسی میں تبدیلی نہیں لائی۔ بی جے پی کو اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنا ایک سخت ترین مرحلہ ہے۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کے اندر بی جے پی کی جو شبیہ ہے، وہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان انتخابات میں کانگریس اور ایس پی کی کامیابی بے مثال سمجھی جارہی ہے۔ اس امر کی کئی وجوہات ہیں۔

ایک وجہ تو عوام میں کلیتاً مودی حکومت کی 100 دن کی حکمرانی میں ناقص کارکردگی اور اچھے دن آنے کے نعرے کو رونے کے دن محسوس کرانے والی حکومت کی ناکامیوں کی عکاسی ہے۔ ان انتخابات میں ووٹروں نے ملک و ریاستوں میں رائج اقتصادی، سماجی اور معاشرتی نظام، مہنگائی، بھتہ خوری، ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے میں ناکامی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ بی جے پی نے اگرچیکہ اپنی ناکامی کو وزیراعظم نریندر مودی کے لئے ریفرینڈم تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، حقیقت یہی ہے کہ عوام نے اس طبقے کو بالخصوص مسترد کردیا جو پبلیسٹی کی لہر پر لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تلنگانہ میں ٹی آر ایس امیدوار کے پربھاکر ریڈی کی بھاری اکثریت سے کامیابی کو چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی مقبولیت کا تسلسل قرار دیا جارہا ہے۔ گرچیکہ ٹی آر ایس کو مئی میں منعقدہ انتخابات میں حاصل ووٹوں کے مقابل کم ووٹ ملے اور کانگریس نے اچھا مظاہرہ کیا، تاہم تلنگانہ رائے دہندوں نے اپنے لیڈر پر بھروسہ کرکے ووٹ دیا ہے تو تلنگانہ حکومت کے لئے ایک اچھی شروعات ہے۔ نندی گاما میں تلگو دیشم امیدوار و سافٹ ویر انجینئر سومیا کی کامیابی ان کے والد کے حق میں چلی ہمدردی کی لہر سمجھی جارہی ہے۔ اس کامیابی کو چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کی 100 دن کی حکمرانی کا انعام بھی سمجھا جارہا ہے۔ قومی سطح پر جس پارٹی نے چند ماہ قبل اپنی مقبولیت کی لہر پر اُڑ کر نریندر مودی کو وزیراعظم بنایا تھا۔ اب اسے محسوس ہونا چاہئے کہ مودی یا ان کی طرح کوئی لیڈر صرف لفاظی سے پارٹی کے لئے مضبوط رہگزر نہیں بناسکتا۔ بی جے پی کے قائدین کی اشتعال انگیزیوں نے سیکولر رائے دہندوں کو اپنے ووٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کا موقع دیا ہے۔

اب آئندہ مہاراشٹرا و ہریانہ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو سخت آزمائش سے گذرنا پڑے گا۔ جب مودی نے ترقی کا نعرہ لگایا تو رائے دہندہ انہماک سے ان کی پالیسیوں میں دلچسپی لینے لگا لیکن وزارت عظمیٰ حاصل ہونے کے بعد ترقی کا نعرہ پس منظر میں چلا گیا اور پارٹی قائدین اور محاذی تنظیموں کے ارکان کی نفرت پر مبنی مہم اشتعال انگیزیوں، انتشار پسندانہ مہم پر انہوں نے خاموشی اختیار کرلی جو ہندوستانی عوام کے لئے شدید تشویش کی بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکز کی مودی حکومت دو محاذوں پر کام کررہی ہے۔ ایک محاذ پر مودی نے ترقی کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا تو دوسری طرف ان کی پارٹی کے بعض قائدین اور سنگھ پریوار نے اقلیتوں، پسماندہ طبقات کے خلاف نفرت انگیز مہم کا محاذ کھول دیا ہے۔ وزیراعظم اور سنگھ پریوار کے شرپسند قائدین میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاموش مفاہمت ہوئی ہے۔ اگر بی جے پی کی شکست کا سلسلہ یوں ہی برقرار رہا تو اس کے کٹر پسند فرقہ پرست قائدین ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ اس لئے سیکولر پارٹیوں اور عوام کو چوکس رہنا ہوگا۔ اگر بی جے پی و سنگھ پریوار کے قائدین جیسے امیت شاہ، ساکشی مہاراج، رام سینا اور اس طرح کے دیگر قائدین ہندوستانی سیاست کو نفرت کے کلچر میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جو سیکولر ہندوستان کے مزاج کے مغائر ہے۔ اس لئے یہاں کا رائے دہندہ ایسے سیاست دانوں کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کرنے کیلئے دستوری حق ’’ووٹ‘‘ کو استعمال کرتا ہے جو جمہوریت کی خاص خوبی ہے۔